کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 352
ہوئے جائیں، پھر وہ مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی منشاء کے مطابق دے دوں تو اس سے میرے خزانوں میں کچھ بھی کمی واقع نہیں ہوگی، سوائے اس کے کہ جیسے ایک سوئی سمندر کے پانی میں داخل کی جائے، بس اتنی ہی کمی واقع ہوگی۔‘‘
لہٰذا جو اللہ اتنے بڑے خزانوں کا مالک ہے، بس اسی سے ہی رزق طلب کرنا چاہئے۔
اِس تمہیدکے بعد اب آئیے رزق میں برکت کے اسباب بیان کرتے ہیں۔
1۔ایمان وعمل صالح
رزق میں برکت کے اسباب میں سے سب سے اہم سبب ہے : ایمان وعمل وصالح۔اور اس کا مطلب یہ ہے کہ
٭بندہ دل کی گہرائی سے اللہ رب العزت کی وحدانیت کو تسلیم کرے۔اسے اس کی توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات پر مکمل یقین ہو۔
٭ بندے کو اس بات پر مکمل یقین ہو کہ تمام انبیاء ورسل علیہم السلام اللہ کے چنیدہ بندے ہیں، جنھیں اللہ تعالی نے نبوت ورسالت کے منصب پر فائز فرمایا اور انھیں دین اسلام کے ساتھ مبعوث فرمایا۔
٭ بندے کو اس پات پر بھی پختہ یقین ہو کہ فرشتے اللہ تعالی کی نوارنی مخلوق ہیں۔وہ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اس کی نافرمانی نہیں کرتے۔
٭ اسی طرح اسے اس بات پر بھی یقین کامل ہو کہ تمام آسمانی کتابیں اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہیں اوران میں اللہ تعالی کی وہ تعلیمات ہیں جو انسانوں کیلئے دستورِ حیات ہیں اور ان پر عمل کرکے انسان اللہ تعالی کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے۔
٭ بندے کو اس بات پر بھی مضبوط یقین ہو کہ یہ دنیا ایک دن ختم ہوجائے گی، پھر قیامت کا دن قائم ہوگا، جس میں تمام جن وانس کے بارے میں اللہ تعالی فیصلہ صادر فرمائے گا کہ کس کو جنت اور کس کوجہنم میں جاناہے۔
٭ اسی طرح بندے کو اس بات پر بھی یقین کامل ہو کہ ہر قسم کی تقدیر اللہ تعالی کی طرف سے ہے، خواہ اچھی یا بری۔
٭ ایمان کے اِن چھ ارکان کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ بندہ ان کے تقاضوں کو پورا کرے۔
چنانچہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کرے اور نافرمانی سے اجتناب کرے۔