کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 347
سنگین جرائم مثلا زنا، شراب نوشی، چوری، ڈاکہ زنی اور قتل وغارت گری وغیرہ کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔اور ان جیسے بڑے بڑے گناہوں کے بارے میں لوگوں کو تنبیہ نہیں کرتے۔
اسی طرح یہ لوگ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن لوگوں کو ابتداع کی شرعی حیثیت اور اس کے خطرناک نتائج کے بارے میں آگاہ نہیں کرتے۔اور نہ ہی معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعات پر متنبہ کرتے ہیں۔تو صرف ’ فضائل اعمال ‘ پر زور دینا اور اساسیاتِ دین کو بالکل نظر انداز کرنا بھی غلو کی شکلوں میں سے ایک شکل ہے۔جس سے دعاۃ ومبلغین کو بچنا چاہئے۔
٭ اوربعض لوگ دعوت میں اِس قدر غلو کرتے ہیں کہ وہ لوگوں پر ’کفر‘ کا فتوی لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔اور معمولی باتوں پر ’کفر ‘ کا فتوی صادر کردیتے ہیں۔حالانکہ کسی پر ’ کفر ‘ کا فتوی لگانا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا کَفَّرَ الرَّجُلُ أَخَاہُ فَقَدْ بَائَ بِہَا أَحَدُہُمَا)) [1]
’’ جب ایک آدمی اپنے بھائی کو کافر کہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک ضرور اس کا مستحق ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَیُّمَا امْرِیٍٔ قَالَ لِأَخِیْہِ : یَا کَافِرُ، فَقَدْ بِہَا بِہٖ أَحَدُہُمَا، إِنْ کَانَ کَمَا قَالَ، وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَیْہِ)) [2]
’’ جو آدمی اپنے بھائی سے کہے : اے کافر ! تو ان دونوں میں سے کوئی ایک ضرور اس کا مستحق ہوتا ہے۔جس کو اس نے کافر کہا، اگر وہ ویسا ہی ہے تو ٹھیک، ورنہ وہ لفظ خود اسی پر لوٹ آتا ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کو کافر کہنا اسے قتل کرنے کے برابر قرار دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( وَمَنْ رَمَی مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ فَہُوَ کَقَتْلِہٖ))[3]
’’ اور جس آدمی نے مومن پر کفر کا فتوی لگایا تو وہ اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔‘‘
لہذا اِس سنگین قسم کے غلو سے بھی غلو کرنے والے لوگوں کو ڈرنا چاہئے اور اس سے قطعی اجتناب کرنا چاہئے۔
9۔قراء ت ِ قرآن میں غلو کرنا
قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے۔اور اسے اُسی طرح پڑھنا ضروری ہے جیسا کہ اسے اللہ تعالی نے نازل
[1] صحیح البخاری :6104، صحیحمسلم :60واللفظ لہ
[2] صحیح مسلم : 61
[3] صحیح البخاری : 6105