کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 346
’’ آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے۔اور ان کے ساتھ بحث وتکرار میں سب سے عمدہ اسلوب اختیار کیجئے۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ کو دعوتِ اسلام کیلئے یمن کی طرف روانہ فرمایا تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ
((یَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا)) [1]
’’ لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرنااور انھیں سختی اور پریشانی میں نہ ڈالنا۔اور ان کوخوشخبری دینا، دین سے نفرت نہ دلانا۔اور دونوں مل جل کر کام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَحَبُّ الْأَدْیَانِ إِلیَ اللّٰہِ تَعَالَی الْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ)) [2]
’’ اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب دین ‘ دین ِ حنیفی ہے جوکہ آسان ہے۔‘‘
لہٰذا دعاۃ، خطباء اور واعظین پر یہ بات لازم ہے کہ وہ دین کو لوگوں کے سامنے آسان انداز میں اور بہترین اسلوب کے ساتھ پیش کریں اور خواہ مخواہ سختی نہ کریں کہ جس سے لوگوں کے دلوں میں اسلامی تعلیمات سے نفرت پیدا ہو۔
٭ بعض دعاۃ وخطباء فروعی، اجتہادی مسائل پر خوب گفتگو کرتے اور بحث ومباحثہ کرتے ہیں،بلکہ اپنی زیادہ تر توانائیاں اسی پر صرف کرتے ہیں اور اصولی، اعتقادی مسائل کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں یا ان پر بہت کم بات کرتے ہیں۔یہ بھی غلو ہی کی ایک صورت ہے۔کیونکہ دین میں دعوت الی اللہ کی ترجیحات متعین کردی گئی ہیں۔اور عقائد و ایمانیات، فرائض اسلام، مبادیٔ دین اور اخلاقیات کو دیگر مسائل پر فوقیت دی گئی ہے۔اس لئے داعی الی اللہ کو بھی اپنی دعوت میں انہی ترجیحات کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
٭ اسی طرح بعض لوگ اپنی دعوت میں صرف ’ فضائل اعمال ‘ ذکر کرتے ہیں اور وہ بھی زیادہ تر ایسے جو ضعیف، جھوٹی اور من گھڑت احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں۔اور دین کے اہم مسائل، مثلا توحید الوہیت، توحید اسماء وصفات، ارکان اسلام اور ارکان ایمان پر ایک لفظ بھی نہیں بولتے۔توحید کے بارے میں گفتگو کریں گے تو زیادہ سے زیادہ توحید ربوبیت ہی بیان کریں گے جسے مشرکین مکہ بھی تسلیم کرتے تھے اور اِس دور کے مشرک بھی مانتے ہیں۔اور جس توحید کو وہ نہیں مانتے، یعنی توحید الوہیت، تواُس کے بارے میں نہ وہ خود آشنا ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ مبلغین لوگوں کو شرک سے نہیں ڈراتے اور نہ ہی اس کی سنگینیوں کے متعلق انھیں آگاہ کرتے ہیں۔اِس کے علاوہ معاشرے میں پھیلے ہوئے دیگر خطرناک اور
[1] صحیح البخاری : 3038
[2] صحیح الجامع : 160