کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 345
(( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! اِرْبَعُوا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ فَإِنَّکُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّہُ مَعَکُمْ، إِنَّہُ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ، تَبَارَکَ اسْمُہُ وَتَعَالٰی جَدُّہُ )) [1]
اے لوگو ! تم اپنے اوپر ترس کھاؤ، کیونکہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔وہ تو تمھارے ساتھ ہے۔وہ یقینا بہت سننے والا اور نہایت قریب ہے۔اس کا نام بابرکت اور اس کی بزرگی بہت بلند ہے۔‘‘
اور ’ غلو ‘ کی دوسری صورت یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کے الفاظ میں حد سے تجاوز کرے۔
جیسا کہ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یوں دعا کرتے ہوئے دیکھا :
( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْقَصْرَ الْأَبْیَضَ عَنْ یَمِیْنِ الْجَنَّۃِ إِذَا دَخَلْتُہَا )
’’اے اللہ ! میں جب جنت میں داخل ہو جاؤں تو مجھے اس کی َدائیں طرف سفید محل نصیب کرنا۔‘‘
تو انھوں نے کہا : (( أَیْ بُنَیَّ ! سَلِ اللّٰہَ الْجَنَّۃَ وَتَعَوَّذْ بِہٖ مِنَ النَّارِ ))
’’ میرے بیٹے ! اللہ تعالی سے بس جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ طلب کرو۔‘‘
کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :
(( سَیَکُونُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ قَوْمٌ یَّعْتَدُوْنَ فِی الطَّہُورِ وَالدُّعَائِ)) [2]
’’ میری امت میں عنقریب ایسے لوگ ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے۔‘‘
آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! پہلے خطبے میں ہم نے غلو کی سات صورتیں بیان کی ہیں۔اب اِس کی ایک دو صورتیں اور بھی جان لیجئے۔
8۔دعوت الی اللہ میں غلو
جو حضرات میدان ِ دعوت میں کام کرتے ہیں اور تبلیغ ِ دین اور وعظ ونصیحت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں، ان میں سے بعض لوگ اپنی دعوت میں غلو کرتے ہیں۔اور خواہ مخواہ دین میں سختی کرکے لوگوں کو نفرت دلاتے ہیں۔
جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ﴾[3]
[1] صحیح البخاری :2830، صحیح مسلم :2704
[2] سنن أبی داؤد : 96، وسنن ابن ماجۃ :3864۔وصححہ الألبانی
[3] النحل16 :125