کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 343
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سواری پر سوار ہونے کا حکم دیا۔[1] ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے آپ پر خواہ مخواہ سختی کرنا اور خودکومشقت میں ڈالنا غلو ہے، جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور اعتدال کی راہ اپنانے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِّنَ الدُّلْجَۃِ )) ’’بے شک دین آسان ہے اور جو آدمی دین میں تکلف کرے گا اور اپنی طاقت سے بڑھ کر عبادت کرنے کی کوشش کرے گا دین اس پر غالب آ جائے گا۔لہذا تم اعتدال کی راہ اپناؤ، اگر کوئی عبادت مکمل طور پر نہ کر سکو تو قریب قریب ضرور کرو، عبادت کے اجر وثواب پر خوش ہو جاؤ اور صبح کے وقت، شام کے وقت اور رات کے آخری حصہ میں عبادت کرکے اللہ تعالی سے مدد طلب کرو۔‘‘ [2] لہذا غلو کی ان تمام صورتوں سے بچنا چاہئے۔اللہ تعالی ہم سب کو غلو سے محفوظ رکھے۔ 6۔بے جا سوالات کے ذریعے دین میں سختی کرنا ’غلو ‘ کی ایک اور صورت ہے : بے جا اور غیر ضروری سوالات کرکے دین میں خواہ مخواہ سختی کرنا۔جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ شریعت جن امور میں خاموش ہو ان میں خاموشی ہی اختیار کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر بعض لوگوں کے بے جا سوالات کو انتہائی نا پسند فرمایا۔جیسا کہ حج کی فرضیت ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَیُّہَا النَّاسُ، قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا )) ’’ اے لوگو ! اللہ نے تم پرحج فرض کیا ہے، لہذا تم حج کرو۔‘‘ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی حتی کہ اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَوْ قُلْتُ نَعَمْ، لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ )) ’’ اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال حج واجب ہو جاتا، اور ایسا ہو جاتا تو تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔‘‘
[1] صحیح البخاری :1865،صحیح مسلم :1642 [2] صحیح البخاری۔کتاب الإیمان :39