کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 342
(( مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَتَنَزَّہُوْنَ عَنِ الشَّیْیئِ أَصْنَعُہُ، فَوَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأَعْلَمُہُمْ بِاللّٰہِ وَأَشَدُّہُمْ لَہُ خََشْیَۃً)) [1] ’’ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس کام سے بچنے لگے ہیں جو میں کرتا ہوں ! اللہ کی قسم ! میں ان سے زیادہ اللہ کو جاننے والا اور ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔‘‘ 5۔اپنے آپ پر سختی کرنا ’ غلو ‘ کی ایک صورت ہے : اپنے آپ کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالنا اور اپنی جان پر سختی کرنا۔جو یقینا درست نہیں ہے۔اور اس کے کئی دلائل ہیں : 1۔ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا جو کھڑا ہوا تھا اور بیٹھنے سے گریز کر رہا تھا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا، تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو اسرائیل ہے جس نے نذر مانی ہے کہ یہ کھڑا رہے گا اور نہیں بیٹھے گا۔نیز سائے میں نہیں جائے گا ( ہمیشہ دھوپ میں رہے گا ) اور کسی سے بات چیت بھی نہیں کرے گا اور روزہ رکھے گا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مُرْہُ فَلْیَتَکَلَّمْْ، وَلْیَسْتَظِلَّ، وَلْیَقْعُدْ، وَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ )) [2] ’’ اسے حکم دو کہ بات چیت شروع کردے، سائے میں بھی جائے، نیز بیٹھ جائے اور اپنا روزہ مکمل کرلے۔‘‘ 2۔عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ کی طرف پیدل چل کر جائے گی۔اور اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کیلئے فتوی طلب کروں۔تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی طلب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لِتَمْشِ وَلْتَرْکَبْ )) ’’ اسے کہو کہ وہ پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہو۔‘‘[3] 3۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا جسے اس کے دو بیٹوں کے سہارے پر چلایا جا رہا تھا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (( مَا بَالُ ہٰذَا ؟))’’ اسے کیا ہوا ہے ؟ ‘‘ تو لوگوں نے کہا کہ اس نے چلنے کی نذر مانی ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ عَنْ تَعْذِیْبِ ہٰذَا نَفْسَہُ لَغَنِیٌّ )) ’’ بے شک اللہ تعالی اِس بات سے بے پروا ہے کہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالے۔‘‘
[1] صحیح البخاری :6101، 7301،صحیح مسلم :2356 [2] صحیح البخاری :6704 [3] صحیح البخاری :1866، صحیح مسلم :1644