کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 341
( َلا، حُلُّوْہُ، لِیُصَلِّ أَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ، فَإِذَا فَتَرَ فَلْیَقُعُدْ ) [1] ’’ نہیں، اسے کھول دو، تم میں سے ہر شخص اُس وقت تک نماز پڑھے جب تک نشیط ( چست) رہے، پھر جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔‘‘ 6۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( خُذُوْا مِنَ الْأعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ، فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا، وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلیَ اللّٰہِ مَا دُوْوِمَ عَلَیْہِ وَإِنْ قَلَّ)) [2] ’’ تم اپنی طاقت کے مطابق ہی عمل کیا کرو، کیونکہ اللہ تعالی اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم خود نہ اکتا جاؤ۔اور اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے چاہے وہ کم کیوں نہ ہو۔‘ ‘ ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ نفلی اعمال میں اپنے اوپر سختی کرنا اور ان میں غلو کرنا درست نہیں ہے۔لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔اور اپنی طاقت کے مطابق ہی نفلی عبادت کرنی چاہئے۔ 4۔رخصت کو قبول نہ کرنا غلو کی ایک صورت ہے : شریعت میں دی گئی رخصت کو قبول نہ کرنا اور خواہ مخواہ دین میں سختی کرنا۔ مثلا مسافر کو رخصت دی گئی ہے کہ وہ سفر میں روزہ چھوڑ سکتا ہے۔اگر کوئی مسافر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے ہوئے دوران سفر روزہ جاری رکھے تو یہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کا رش دیکھا جنھوں نے ایک آدمی پر سایہ کیا ہوا تھا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اسے کیا ہوا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ روزے سے ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ )) ’’ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔‘‘[3] اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا اور اس میں رخصت دی۔لیکن جب لوگوں کو پتہ چلا تو انھوں نے اسے ناپسند کیا اور اس سے بچنے لگنے۔تو یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اللہ تعالی کی حمد بیان کی، پھر فرمایا :
[1] صحیح البخاری :1150 [2] صحیح البخاری :1970،صحیح مسلم:782۔واللفظ لہ [3] صحیح البخاری :1946،صحیح مسلم:1115