کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 340
پھر جب رات چھا گئی تو حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے اپنے مہمان سے سونے کا کہا اور خود جا کر نماز پڑھنے لگے۔حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے کہا : جاؤ تم بھی سو جاؤ۔چنانچہ وہ بھی سو گئے اور جب رات کا آخری حصہ شروع ہوا تو انھوں نے کہا : اب اٹھو اور نماز پڑھ لو۔پھر انھوں نے کہا : (( إِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا،وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا،وَلِأَہْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا،فَأَعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ )) ’’ تم پر تمھارے رب کا حق بھی ہے، تمھاری جان کا حق بھی ہے اور تمھارے گھر والوں کا حق بھی ہے۔لہذا تم سب کے حقوق ادا کیا کرو۔‘‘ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو پورا قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( صَدَقَ سَلْمَانُ )) ’’ سلمان نے سچ کہا ہے۔‘‘[1] 4۔اسی طرح عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا : (( یَا عَبْدَ اللّٰہِ ! أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّکَ تَصُوْمُ النَّہَارَ وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ ؟)) ’’ عبد اللہ ! کیا مجھے خبر نہیں دی گئی کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہو ؟ ‘‘ تو میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیوں نہیں، میں ایسے ہی کرتا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَلَا تَفْعَلْ،صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا،وَإِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا،وَإِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا،وَإِنَّ بِحَسْبِکَ أَنْ تَصُوْمَ کُلَّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ،فَإِنَّ لَکَ بِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشْرُ أَمْثَالِہَا،فَإِنَّ ذَلِکَ صِیَامُ الدَّہْرِ کُلِّہٖ )) [2] ’’ تم ایسے نہ کیا کرو۔روزہ رکھا کرو اور پھر روزہ چھوڑ دیا کرو۔نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو۔کیونکہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمھارے مہمانوں کا بھی تم پر حق ہے۔اور تمھیں یہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھ لیا کرو۔کیونکہ ایک نیکی دس نیکیوں کی طرح ہوتی ہے۔یوں یہ روزے سال بھر کے ہو جائیں گے۔‘‘ 5۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( مسجد میں ) داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک رسی دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ( مَا ہٰذَا الْحَبَل ؟) ’’ اِس رسی کا کیا ماجرا ہے ؟ ‘‘ تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : یہ زینب رضی اللہ عنہا کیلئے بندھی ہوئی ہے۔جب وہ ( نماز پڑھتے پڑھتے ) تھک جاتی ہیں تو اسے پکڑ لیتی ہیں۔تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[1] صحیح البخاری :1968 [2] صحیح البخاری :1975