کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 338
حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے متعلق سوال کیا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کرکے دکھایا اور تمام اعضائے وضو کو تین تین بار دھویا ( سوائے مسح کے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَمَنْ زَادَ عَلٰی ہٰذَا فَقَدْ أَسَائَ وَتَعَدَّی وَظَلَمَ )) [1] ’’ جس شخص نے اِس پر اضافہ کیا تو اس نے برا کام کیا، زیادتی کی اور ظلم کیا۔‘‘ یہ حدیث اِس بات کی دلیل ہے کہ وضو کے اعضاء کو زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ دھویا جا سکتا ہے۔اِس سے زیادہ مرتبہ دھونا برا عمل او ر ظلم وزیادتی ہے۔لہذا اس میں غلو کرنے سے بچنا ضروری ہے۔ 3۔نفلی عمل میں غلو کرنا بعض لوگ نفلی اعمال میں حد سے تجاوز کرتے ہیں۔اور یہ بھی درست نہیں ہے۔کیونکہ پوری کی پوری خیر وبھلائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں ہے۔ اِس نکتے کی کئی دلیلیں ہیں : 1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَا تُوَاصِلُوْا )) ’’ تم دن اور رات کا روزہ نہ رکھا کرو۔‘‘ تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : آپ تو رکھتے ہیں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنِّیْ لَسْتُ مِثْلَکُمْ،إِنِّیْ أَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ )) ’’ میں تمھاری طرح نہیں ہوں، میں رات گزارتا ہوں، تو مجھے میرا رب کھانا بھی کھلاتا ہے اور پانی بھی پلاتا ہے۔‘‘ اِس کے باوجود بھی وہ لوگ اِس سے باز نہ آئے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ مسلسل دو دنوں یا دو راتوں کا روزہ رکھا۔پھر انھوں نے چاند دیکھ لیا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَوْ تَأَخَّرَ الْہِلَالُ لَزِدتُّکُمْ )کَالْمُنَکِّلِ لَہُمْ )) ’’ اگر چاند نظر نہ آتا تو میں تمھیں اور زیادہ دنوں کا روزہ رکھواتا۔‘‘ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں سزا دے رہے تھے۔[2]
[1] سنن النسائی :140۔وصححہ الألبانی [2] صحیح البخاری :7299