کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 337
اسی طرح ایک اور کہتا ہے :
لوگی عرشاں دے اُتے لبھدے نیں رب بوری والے دے اولے آبیٹھا
یعنی لوگ رب کو عرش پر تلاش کرتے ہیں جبکہ رب تو بوری والے پیر کے ہاں آ بیٹھا ہے !
اسی طرح کئی لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں شدید غلو کرتے ہیں اور انھیں رب تک مانتے ہیں۔نیز یہی لوگ اپنے ائمہ کو معصوم قرار دیتے ہیں، بلکہ انھیں انبیاء علیہم السلام سے بھی افضل گردانتے ہیں !
اللہ رب العزت غلو کرنے والے اِن تمام لوگوں کو ہدایت دے۔
2۔عبادت میں غلو کرنا
بعض لوگ عبادت میں غلو کرتے ہیں، یعنی حد سے تجاوز کرتے ہیں۔اور ایسا کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ شریعت میں جب ایک چیز کی حد مقرر کردی جائے تو اس سے تجاوزکرنا درست نہیں ہوتا۔
اِس کی دو دلیلیں ہیں :
1۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذو الحج کی صبح کو اپنے سواری پر بیٹھے ہوئے مجھے حکم دیا کہ ( ہَاتِ اُلْقُطْ لِیْ ) ’’ لاؤ، مجھے کنکریاں چن کر دو۔‘‘
تو میں نے چند کنکریاں جو چنے کے سائز سے تھوڑی سی بڑی تھیں، چن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رکھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو فرمایا :
(( بِأَمْثَالِ ہٰؤُلَائِ، وَإِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّیْنِ فَإِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ)) [1]
’’ اسی طرح کی کنکریاں مارنا۔اور دین میں غلو سے پرہیز کرنا۔کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہی ہلاک وبرباد کیا۔‘‘
جبکہ آج کل بہت سارے لوگ مناسک ِ حج کی ادائیگی کے دوران جب جمرات کو کنکریاں مارتے ہیں تو کئی طرح سے غلو کرتے ہیں۔چنانچہ کئی لوگ بڑے بڑے پتھر مارتے ہیں۔کئی لوگ چپل اور جوتے مارتے ہیں۔اور کئی لوگ کنکریاں مارتے ہوئے شیطان کو گالیاں تک دیتے ہیں……تو یہ سب غلو ہی کی صورتیں ہیں، جن سے حجاج کرام کو بچنا چاہئے۔
2۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
[1] سنن النسائی :3075، سنن ابن ماجہ :3029۔وصححہ الألبانی