کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 327
خیال میں آپ پر آج یا کل تک موت آجائے گی۔) پھر ہم ان کے پاس گئے، لوگ آنے جانے اور ان کی تعریف کرنے لگے۔ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا : امیر المؤمنین ! آپ کو اللہ کی بشارت پر خوش ہونا چاہئے، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، آپ نے بہت پہلے اسلام قبول کرلیا تھا، پھر آپ خلیفہ بنے تو آپ نے عدل وانصاف کیا۔اب آپ شہادت حاصل کر رہے ہیں۔تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ گزارے لائق ہے، نہ میرے خلاف ہے اور نہ میرے حق میں ہے۔ جب وہ نوجوان واپس جانے لگا تو اس کا تہہ بند زمین کو چھو رہا تھا۔جناب عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ( رُدُّوْا عَلَیَّ الْغُلَامَ ) ’’ اس نوجوان کو میرے پاس واپس لاؤ۔‘‘ آپ نے فرمایا : ( یَا ابْنَ أَخِیْ ! اِرْفَعْ ثَوْبَکَ فَإِنَّہُ أَنْقٰی لِثَوْبِکَ وَأَتْقٰی لِرَبِّکَ ) ’’ میرے بھتیجے ! اپنا تہہ بند اوپر اٹھاؤ، اس سے تمھارا تہہ بند بھی صاف رہے گا اور تمھیں تمھارے رب کا خوف بھی نصیب ہوگا۔‘‘ ( سامعین ! ذرا غور فرمائیں کہ عمر رضی اللہ عنہ زندگی کے آخری لمحات میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے غافل نہیں ! ایک برائی کو دیکھا تو اس پر خاموشی اختیار نہیں کی، بلکہ برائی کرنے والے نوجوان کو پیار سے سمجھایا اور اُس برائی سے منع کیا۔اور اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا بہت بڑا گناہ ہے، تبھی تو عمر رضی اللہ عنہ خاموش نہ رہ سکے۔) اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’ عبد اللہ ! دیکھو میرے اوپر کتنا قرضہ ہے ؟ ‘‘ چنانچہ جب حساب کیا گیا تو آپ پر چھیاسی ہزار یا اس کے قریب قرضہ نکلا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قرضہ اتارنے کیلئے اگر آل عمر کا مال کافی ہو جائے تو ان کے مالوں میں سے ادا کردینا۔ورنہ بنی عدی بن کعب میں جا کر سوال کرنا، اگر ان کے مال بھی قرضہ اتارنے کیلئے کافی نہ ہوں تو قریش میں جا کر سوال کرنا۔انھیں چھوڑ کر کسی اور کے پاس نہ جانا۔پھر میرا قرضہ اتار دینا۔ اور اب تم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور انھیں کہو : عمر آپ کو سلام کہتا ہے۔امیر المؤمنین مت کہنا، کیونکہ اب میں امیر المؤمنین نہیں رہا۔اور ان سے کہنا : عمر بن الخطاب اجازت طلب کرتا ہے کہ اسے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گئے، سلام کہا اور اجازت طلب کی۔پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اندر گئے تو