کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 326
ہوئے سنا : ’’ مجھے کتے نے مارڈالا ہے۔‘‘ یا کہا : ’’ مجھے کتا کھا گیا ہے۔‘‘
پھر عِلج ( عجمی کافر جو بہت سخت جان تھا اور اس کا نام ابو لؤلوہ تھا) اپنی دو دھاری چھری کے ساتھ دائیں بائیں حملے کرنے لگا اور جو بھی اس کے سامنے آیا اس نے اسے نہیں چھوڑا۔حتی کہ اس نے تیرہ افراد کو نشانہ بنایا جن میں سے سات شہید ہوگئے۔پھر مسلمانوں میں سے ایک شخص نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اس نے اس کے اوپر ایک طویل سی ٹوپی ڈال دی ( جس سے وہ کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ رہا۔ویسے بھی رات کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔)
اسے جب یقین ہوگیا کہ وہ پکڑا گیا ہے تو اس نے خودکشی کرلی۔
عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اپنی جگہ پہ کھڑا کردیا تاکہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھے وہ ‘وہ سب کچھ دیکھ رہے تھے جو میں دیکھ رہا تھا۔لیکن جو لوگ مسجد کے کناروں میں تھے تو انھیں کچھ پتہ نہ چلا، ہاں جب انھیں عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنائی نہ دی تو وہ ’ سبحان اللہ ‘ کہنے لگے۔اس کے بعد عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انھیں انتہائی مختصر سی نماز پڑھائی ( ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے سورۃ الکوثر اور سورۃ النصر پڑھیں )۔چنانچہ جب سب لوگ نماز سے فارغ ہو گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : دیکھو، مجھ پر حملہ آور کون تھا ؟ وہ گئے اور کچھ دیر کے بعد واپس لوٹے تو کہا : وہ مغیرہ کا غلام ہے۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اچھا ! وہ جو کاریگر ہے ؟ ( یہ ایک نجار تھا ) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : جی ہاں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ اسے غارت کرے، میں نے تو اس کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا تھا، اُس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اُس شخص کے ہاتھوں نہیں مارا جو اسلام کا دعویدار ہو۔تم اور تمھارے والد پسند کرتے تھے کہ مدینہ میں عجمی غلام زیادہ تعداد میں رہیں۔العباس رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ غلاموں کے مالک تھے۔تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر آپ چاہیں تو ہم انھیں قتل کردیں۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :نہیں، اب جبکہ وہ تمھاری زبان بولتے ہیں، تمھارے قبلے کی طرف نماز بھی پڑھتے ہیں اور تمھاری طرح حج بھی کرتے ہیں!
پھر عمر رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر ان کے گھر لے جایا گیا۔ہم سب ان کے ساتھ گئے۔اور لوگوں کی حالت ایسی تھی کہ جیسے اُس دن سے پہلے ان پر کوئی مصیبت آئی ہی نہ تھی۔کوئی کہہ رہا تھا : وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔اور کوئی کہہ رہا تھا: مجھے ڈر ہے ( کہ اب نہیں بچ سکتے )
چنانچہ آپ کے پاس نبیذ ( کھجور کا نچوڑ جس میں نشہ نہیں ہوتا ) لایا گیا، آپ نے پیا تو وہ ان کے پیٹ سے باہر آگیا۔پھر دودھ لایا گیا، آپ نے پیا تو وہ بھی آپ کے زخموں سے باہر نکل آیا۔تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ اب یہ نہیں بچ سکتے۔( ایک روایت میں ہے کہ طبیب نے یہ صورتحال دیکھ کر کہا : اب آپ وصیت کریں، کیونکہ میرے