کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 323
جب امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے زمامِ خلافت سنبھالی تو آپ نے سب سے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اسلامی فوج کی قیادت سے معزول کر دیا اور ان کی جگہ پر ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا نیا سپہ سالار مقرر کردیا۔اس کے بعد ملک ِ شام میں جو معارک ہوئے اور مسلمانوں کو جو فتوحات حاصل ہوئیں وہ مختصراً یوں ہیں : ٭ ۱۳ ؁ھ میں معرکۂ فِحْل ہوا جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ ٭ ۱۴ ؁ھ میں دمشق فتح ہوا۔ ٭اس کے بعدمسلمانوں کی فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ایک حصہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شمال (سوریہ ) کی جانب بڑھا۔اور دوسرا حصہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جنوب (اردن)کی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔چنانچہ ملک ِ شام کے باقی علاقے ( سوریہ اور اردن ) پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ان پے در پے فتوحات کے نتیجے میں رومی بادشاہ ( ہرقل ) شدید مایوس ہوا اور اسے ذلیل وخوار ہو کر ملک ِ شام کو الوداع کہنا پڑا۔ ٭ ۱۵ ؁ ھ میں بیت المقدس فتح ہوا۔جو رومیوں کا ایک مضبوط قلعہ تھا۔عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے ساتھ طویل عرصے تک اس کا محاصرہ کئے رکھا۔آخر کار اہل بیت المقدس اِس شرط پر صلح پر آمادہ ہوئے کہ امیر المؤمنین خود بیت المقدس آئیں۔چنانچہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس گئے۔جہاں رومیوں کے ساتھ صلح نامے پر اتفاق کیا گیا۔جس کی رُو سے اہل بیت المقدس کو ان کی جانوں، ان کے مالوں اور عبادت خانوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی۔پھر عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس میں داخل ہوئے، نماز ادا کی اور اس میں مصلی تعمیر کرنے کا حکم دیا۔جو آج بھی مسجد اقصی کے احاطے میں ’’ مصلی عمر بن الخطاب ‘ کے نام سے موجود ہے۔ یوں پورے بلاد ِ شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ ملک ِ مصر اور لیبیا پر چڑھائی ٭ فتحِ بیت المقدس کے بعد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی اجازت سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج کے ساتھ مصر کی طرف متوجہ ہوئے۔اور عریش، عین شمس، فسطاط اور صعید کو فتح کرتے ہوئے اسکندریہ تک جا پہنچے جو اُس وقت مصریوں کا دار الحکومت تھا۔عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کا کئی مہینوں تک محاصرہ کئے رکھا۔آخر کار ’مقوقس ‘ جزیہ دینے کی شرط پر صلح کرنے پر مجبور ہوگیا۔اِس طرح متعدد معرکوں کے بعد ۲۱ ؁ھ میں ملک ِ مصر