کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 322
3۔رحم دل افسروں کی تعیین
ابو عثمان النہدی بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بنو اسد کے ایک آدمی کو کسی اہم کام کا ذمہ دار مقرر کیا۔چنانچہ وہ آپ رضی اللہ عنہ کو سلام کہنے کیلئے آیا۔اسی دوران عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کوئی بچہ آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کا بوسہ لیا۔تو اُس آدمی نے کہا : امیر المؤمنین ! آپ بھی بچوں کا بوسہ لیتے ہیں ! جبکہ میں نے تو کبھی اپنے کسی بچے کا بوسہ نہیں لیا۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تب تو تم لوگوں کیلئے بھی رحم دلی کا مظاہرہ نہیں کرو گے، جاؤ میں تم سے کبھی کوئی کام نہیں لے سکتا۔[1]
اسی طرح ابو فراس النہدی بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا :
’’ خبر دار ! میں تمھاری طرف اپنے افسروں کو اس لئے نہیں بھیجتا کہ وہ تمھاری جِلدوں پر ماریں، یا تمھارے مالوں پر قبضہ کرلیں، بلکہ میں انھیں اس لئے بھیجتا ہوں کہ وہ تمھیں تمھارا دین سکھلائیں، لہذا اگروہ کسی شخص کے ساتھ اِس کے علاوہ کوئی اور سلوک کرے تو وہ مجھ تک اپنی بات پہنچائے، اللہ کی قسم ! میں اُس سے ضرور بدلہ لوں گا۔‘‘ [2]
4۔تعلیم وتربیت کا اہتمام
السائب ین یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا کہ مجھے کسی آدمی نے کنکری ماری، میں نے دیکھا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے، انھوں نے کہا : یہ جو دو آدمی ہیں نا، انھیں میرے پاس لے آؤ۔
میں انھیں لے کر آیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : تم کن میں سے ہو اور کہاں سے ہو ؟
انھوں نے کہا : اہل طائف میں سے۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر تم اسی شہر سے ہوتے تو میں تمھیں سزا دیتا، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں اونچی کرتے ہو ؟ [3]
5۔فاروقی دور کی فتوحات
سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو اُن دنوں مسلمانوں کی فوج جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ’یرموک ‘ کے مقام پر رومیوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہی تھی۔اِس سے پہلے عراق کے بیشتر علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔’جنگ یرموک ‘ میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا اور رومی شکست فاش سے دوچار ہوئے۔
[1] البخاری فی الأدب المفرد : ص 64۔وصححہ الألبانی
[2] مسند أحمد:1/279 وحسنہ أحمد شاکر
[3] صحیح البخاری :458