کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 319
آپ رضی اللہ عنہ کے کئی واقعات کتب ِ حدیث اور کتبِ سیرت میں موجود ہیں جنھیں ہم قلت ِ وقت کے پیش نظر یہاں ذکر نہیں کر سکتے۔ 6۔زہد فی الدنیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد اللہ تعالی نے قیصروکسری کے خزانے مسلمانوں کو عطا کردئیے۔لیکن آپ رضی اللہ عنہ کا اندازِ معیشت ویسے ہی رہا جیسے خلیفہ بننے سے پہلے تھا۔بلکہ جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات قریب تھی تو آپ نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ ان کے ذمے چھیاسی ہزارقرضہ ہے جو انھیں ان کی طرف سے ادا کرنا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ مسلمانوں کا خلیفہ، وسیع وعریض اسلامی مملکت کا حکمران موت کے وقت مقروض ہے ! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو قیصر وکسری کے قیمتی خزانوں نے ذرا بھی متاثر نہ کیا۔دنیا کے مال ومتاع نے آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے فتنے میں مبتلا نہ کیا، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے اللہ رب العزت کو پیارے ہو گئے۔ بیت المال سے اپنے اور اپنے اہل وعیال کیلئے کچھ مال لینے کے بارے میں ان کا موقف یہ تھا کہ آپ فرماتے تھے : ’’ اللہ کے مال میں میری حیثیت ایسے ہی ہے جیسے ایک یتیم کے سرپرست کی ہوتی ہے۔جس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ ’’ اور جو مالدار ہو وہ ( یتیم کے مال سے ) کچھ نہ لے۔اور جو محتاج ہو وہ عرف کے مطابق کھا سکتا ہے۔‘‘ چنانچہ میں جب مالدار ہوتا ہوں تو بیت المال سے کچھ بھی نہیں لیتا اور اگر محتاج ہوتاہوں تو عرف کے مطابق کھا لیتا ہوں لیکن جب اللہ تعالی آسانی کر دیتا ہے تو واپس لوٹا دیتا ہوں۔‘‘[1] اسی طرح آپ نے فرمایا : ’’ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ میں بیت المال سے کتنا لیتا ہوں۔سال بھر میں دو مرتبہ کپڑے لیتا ہوں، ایک مرتبہ سردی میں اور دوسری مرتبہ گرمی میں۔اور سواری صرف حج وعمرہ کیلئے لیتا ہوں۔اور میری اور میرے گھر والوں کی خوراک ویسے ہی ہے جیسے قریش کے ایک متوسط آدمی کی ہوتی ہے۔پھر تم لوگ یہ بھی یاد رکھو کہ میں بھی
[1] طبقات ابن سعد : 3/276وسندہ صحیح