کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 317
ایسی قسم نہیں اٹھائی، نہ اپنی طرف سے اور نہ کسی کی طرف سے نقل کرتے ہوئے۔[1] (۳) عبد اللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے اور جب آپ ’سرغ‘ مقام پر پہنچے تو آپ کو پتہ چلا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے۔چنانچہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : (( إِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوْا عَلَیْہِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوْا فِرَارًا مِنْہُ)) ’’ جب تم وبا کے بارے میں سنو کہ وہ کسی ملک میں پھیل چکی ہے تو اس میں مت جاؤ۔اور جب تم کسی ملک میں موجود ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے مت نکلو۔‘‘ یہ حدیث سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ’ سرغ ‘ سے ہی واپس لوٹ آئے۔[2] (۳) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حجر اسود کا بوسہ لیا تو فرمایا : ( أَمَا وَاللّٰہِ، إِنِّیْ لَأعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْ لاَ أَنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ) ’’ خبر دار ! مجھے معلوم ہے کہ تم ایک پتھر ہو اور تم نہ نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ نفع۔اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارا بوسہ لیا ہے تو میں کبھی تمہارا بوسہ نہ لیتا۔‘‘ پھر فرمانے لگے : (( مَا لَنَا وَلِلرَّمَلِ، إِنَّمَا کُنَّا رَائَ یْنَا الْمُشْرِکِیْنَ، وَقَدْ أَہْلَکَہُمُ اللّٰہُ، ثُمَّ قَالَ : شَیْئٌ صَنَعَہُ رَسُوْلُ اللّٰہُ صلي اللّٰه عليه وسلم فَلاَ نُحِبُّ أَنْ نَتْرُکَہُ )) یعنی ’’ اب ہم رمل کیوں کریں ! وہ تو در اصل ہم مشرکین کے سامنے ( اپنی طاقت ) کے اظہار کیلئے ہی کرتے تھے اور اب تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کردیا ہے ! پھر کہنے لگے : جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ اسے چھوڑ دیں۔‘‘[3] 4۔انفاق فی سبیل اللہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے اُس دن میرے پاس مال موجود تھا۔میں نے دل میں کہا : آج ابو بکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جانے کا بہترین موقع ہے، لہذا میں اپنا آدھا مال لے آیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔
[1] صحیح البخاری :6647،صحیح مسلم :1646 [2] صحیح البخاری :5730،6973، صحیح مسلم :2219 [3] صحیح البخاری : 1605، صحیح مسلم :1270