کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 315
((أَرْحَمُ أُمَّتِیْ بِأُمَّتِیْ أَبُوْ بَکْرٍ، وَأَشَدُّہُمْ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ عُمَرُ ))
’’ میری امت میں سے میری امت کیلئے سب سے زیادہ رحم دل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں اور ان میں سب سے زیادہ مضبوط دین والے عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘[1]
اورابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’میں سویا ہوا تھا کہ اسی دوران میں نے خواب میں لوگوں کو دیکھا جو مجھے پیش کئے جا رہے تھے اور ان پر کُرتے تھے، کسی کا کرتہ سینے تک تھا ( یعنی بہت ہی چھوٹا کرتہ جو گلے سے بس سینے تک ہی پہنچتا ) اور کسی کا اس سے نیچے تک۔اور عمر رضی اللہ عنہ بھی پیش کئے گئے جن پر اتنا لمبا کرتہ تھا کہ وہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس کی تعبیر دین ہے۔‘‘[2]
اور اس سے مراد یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے خوبصورت دینی اثرات اور ان کے بہترین طریقے ان کی وفات کے بعد بھی مسلمانوں میں جاری رہیں گے اور ان کی اقتداء کی جائے گی۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حُرّ بن قیس رضی اللہ عنہ نے عیینہ بن حصن کیلئے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ان کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، تو انھوں نے اجازت دے دی۔چنانچہ جب وہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کہنے لگے : ابن الخطاب ! آپ ہمیں زیادہ مال نہیں دیتے اور نہ ہی ہمارے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں ! یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کو شدید غصہ آیا حتی کہ انھوں نے اسے سزا دینے کا ارادہ کرلیا تھا۔تو حُرّ بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا : امیر المؤمنین ! اللہ تعالی کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے حکم ہے کہ
﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ ﴾[3]
’’ در گزر کرنے کا رویہ اختیار کیجئے، معروف کاموں کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے اعراض کیجئے۔‘‘
اور یہ ( عیینہ بن حصن ) بھی جاہلوں میں سے ایک ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
( وَاللّٰہِ مَا جَاوَزَہَا عُمَرُ حِیْنَ تَلَاہَا عَلَیْہِ، وَکَانَ وَقَّافًا عِنْدَ کِتَابِ اللّٰہِ )
’’ اللہ کی قسم ! عمر رضی اللہ عنہ پر جب انھوں نے اس آیت کی تلاوت کی تو وہ اس سے آگے نہیں بڑھے اور آپ
[1] جامع الترمذی : 3790، سنن ابن ماجہ :154واللفظ لہ۔وصححہ الألبانی
[2] صحیح البخاری : 23، صحیح مسلم :2390
[3] الأعراف7 :199