کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 313
بدعات کا ظہور آپ کی شہادت کے بعد ہوا۔منافقین آپ کی زندگی میں چھپے ہوئے تھے۔لیکن جیسے ہی آپ کو شہید کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی منافق سانپوں کی طرح اپنی بِلوں سے نکل آئے اور زہر پھیلانے لگے۔
زید بن وہب کہتے ہیں کہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔انھوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یاد کیا تو رو دیئے۔اور اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں بھیگ گئیں۔پھر انھوں نے فرمایا :
( إِنَّ عُمَرَ کَانَ حِصْنًا حَصِیْنًا لِلْإِسْلَامِ، یَدْخُلُوْنَ فِیْہِ وَلَا یَخْرُجُوْنَ مِنْہُ )
’’ بے شک عمر رضی اللہ عنہ اسلام کا مضبوط قلعہ تھے۔لوگ اس میں داخل ہوتے تھے اور اس سے نکلتے نہیں تھے۔‘‘
( فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ انْثَلَمَ الْحِصْنُ، فَالنَّاسُ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْإِسْلَامِ )
’’ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تو قلعہ میں شگاف پڑ گیا، چنانچہ لوگ اسلام سے نکلنے لگے ہیں۔‘‘[1]
7۔عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان کی تصدیق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ ایک مرتبہ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا، اسی دوران ایک بھیڑیے نے ان پر حملہ کردیا اور ایک بکری کو پکڑ لیا۔چنانچہ چرواہا اس کے پیچھے بھاگا حتی کہ اسے اس سے چھڑوا لیا۔بھیڑیے نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور کہنے لگا: (( مَنْ لَہَا یَوْمَ السَّبُعِ یَوْمَ لَیْسَ لَہَا رَاعٍ غَیْرِیْ ؟ ))
’’بکری کی حفاظت اُس دن کون کرے گا جب فتنے ہونگے اور میرے علاوہ ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہوگا؟ ‘‘
تو لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ ( بھیڑیا بھی بول سکتا ہے ) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( فَإِنِّیْ أُوْمِنُ بِہٖ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ )) وَمَا ثَمَّ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ
’’( اگر آپ لوگوں کو اس پر یقین نہیں آرہا ) تو مجھے اس پر یقین ہے اور ابو بکر و عمر کو بھی اس پر یقین ہے۔‘‘ جبکہ وہاں ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما نہیں تھے۔[2]
8۔عمر رضی اللہ عنہ کے علم کی بشارت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ میں سویا ہوا تھا کہ اسی دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس ایک پیالہ لایا گیا ہے جس میں دودھ ہے، میں نے اس میں سے اتنا پیا کہ میں اپنے ناخنوں میں اس کی تازگی کو دیکھنے لگا۔پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔‘‘
[1] مصنف عبد الرزاق : 7/289۔وإسنادہ صحیح
[2] صحیح البخاری :3487