کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 312
ان تمام واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جناب عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر برحق اور درست بات کو جاری کردیا تھا۔اور وہ جو بات کرتے تھے اللہ تعالی بھی اسی کی تائید فرماتا تھا۔
6۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فتنوں کے سامنے ایک مضبوط دروازہ تھے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ انھوں نے فرمایا :
( أَیُّکُمْ یَحْفَظُ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِی الْفِتْنَۃِ ؟ )
’’ تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہو ؟‘‘
تو میں نے کہا : میں۔
انھوں نے فرمایا : ( إِنَّکَ لَجَرِیٔ ) ’’تم بہت جراتمند ہو۔‘‘
تو میں نے کہا : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے :
(( فِتْنَۃُ الرَّجُلِ فِیْ أَہْلِہٖ وَوَلَدِہٖ وَجَارِہٖ تُکَفِّرُہَا الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ وَالصَّدَقَۃُ وَالْأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ ))
’’ آدمی اپنے گھر والوں، اپنی اولاد اور اپنے پڑوسیوں کی وجہ سے جس فتنے سے دوچار ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا جیسے اعمال مٹا دیتے ہیں۔‘‘
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فتنے سے میری مراد یہ نہیں تھی۔بلکہ میری مراد وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا آئے گا۔
تو میں نے کہا : امیر المؤمنین ! آپ کا اس فتنے سے کیا تعلق ؟ آپ اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔
انھوں نے فرمایا : کیا اس دروازے کو ( زبردستی ) توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا ؟
تو میں نے کہا : اسے توڑا جائے گا۔
تو انھوں نے فرمایا : تب تو اسے دوبارہ بند نہیں کیا جا سکے گا۔
ہم نے کہا : حذیفہ ! کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے ؟
تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں، انھیں اس بات پر اتنا یقین تھا جیسے یہ یقینی ہے کہ کل سے پہلے رات آئے گی۔[1]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ فتنوں کے سامنے بند دروازہ تھے۔اِس دروازے کو زبردستی توڑا گیا اور حملہ کرکے آپ کو شہید کیا گیا۔اس کے بعد امت مسلمہ پر متعدد فتنے امڈ آئے۔چنانچہ فرق ِ باطلہ اور متعدد
[1] صحیح البخاری :3586