کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 311
((أَخِّرْ عَنِّیْ یَا عُمَر )) ’’ عمر ! پیچھے ہٹو۔‘‘
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((خَیَّرَنِی اللّٰہُ فَقَالَ : ﴿ اِسْتَغْفِرْلَھُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَھُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ﴾ ’’مجھے اللہ تعالی نے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کیلئے استغفار کریں یا ان کیلئے استغفار نہ کریں۔اگر آپ ان کیلئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں تو بھی اللہ تعالی انھیں ہرگز نہیں بخشے گا۔‘‘
( وَسَأَزِیْدُ عَلٰی سَبْعِیْنَ ) ’’ اور میں ستر سے بھی زیادہ مرتبہ اس کیلئے بخشش مانگوں گا۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( وَلَوْ أَعْلَمُ أَنِّیْ إِنْ زِدتُّ عَلَی السَّبْعِیْنَ یُغْفَرُ لَہُ لَزِدتُّ عَلَیْہَا )
’’ اگر مجھے علم ہوتا کہ ستر سے زیادہ مرتبہ اس کیلئے دعائے مغفرت کے نتیجے میں اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ضرور ایسا کر گزرتا۔‘‘
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ تو منافق تھا !
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کردی :
﴿ وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ﴾ [1]
’’ ان ( منافقوں ) میں سے کوئی مر جائے تو آپ نہ اس کی نماز جنازہ پڑھنا اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔‘‘[2]
یہ چند واقعات تھے جن میں جناب عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق اللہ رب العزت کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔ان مسائل کو موافقاتِ عمر کہا جاتا ہے۔
6۔اسی طرح حرمت ِ خمر کے بارے میں بھی اللہ تعالی نے عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق اس کی واضح تحریم نازل فرمائی۔[3]
7۔اس کے علاوہ مدینہ منورہ میں نماز کیلئے لوگوں کو بلانے کے طریقۂ کار کے بارے میں جب مختلف آراء سامنے آئیں تو عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا تھا کہ نماز کیلئے اذان کہی جائے۔پھر اذان کے الفاظ انھیں اور اسی طرح عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب میں بتلائے گئے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اذان کہیں۔[4]
[1] التوبۃ9 :84
[2] صحیح البخاری :4393،4394،4395، وصحیح مسلم :2400
[3] مسند أحمد :378، جامع الترمذی :3049۔صححہ الألبانی
[4] صحیح مسلم :377، جامع الترمذی :189