کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 310
سردار ہیں۔( یعنی یہ آزاد ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اور زیادہ سازشیں کریں گے ) عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کیا اور میری رائے کو پسند نہ کیا۔میں ایک دن بعد آیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے رو رہے ہیں۔میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے، آپ اور آپ کے ساتھی ( ابو بکر ) کیوں رو رہے ہیں ؟ اگر مجھے رونا آگیا تو میں بھی روؤں گا اور اگر رونا نہ آیا تو پھر بھی آپ دونوں کے رونے کی بناء پر رونے کی کوشش کروں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس لئے رو رہا ہوں کہ تمھارے ساتھیوں نے فدیہ قبول کرنے کا مشورہ دیا ( اور میں نے وہ مشورہ قبول کرلیا ) جبکہ ان سب کا عذاب ( قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) اس درخت سے بھی زیادہ قریب تک پیش کیا گیا ہے۔اور اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کی ہیں: ﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ٭ لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾[1] ’’نبی کیلئے یہ مناسب نہیں تھا کہ اس کے پاس جنگی قیدی آئے حتی کہ وہ (انھیں )زمین میں اچھی طرح قتل کرکے (کفر کی طاقت کو توڑ دیتا )، تم دنیا کا مال چاہتے ہو جبکہ اللہ ( تمھارے لئے ) آخرت چاہتا ہے۔اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے۔اگر ایسا ہونا پہلے سے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو تم نے ( فدیہ ) لیا اس پر تمھیں بہت بڑی سزا دی جاتی۔‘‘ 5۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن ابی بن سلول مرا تو اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے آپ کے کُرتے کا مطالبہ کیا جسے وہ اپنے باپ کا کفن بنانا چاہتے تھے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنا کرتہ دے دیا۔پھر انھوں نے کہا کہ آپ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے، لیکن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام کر کہا : یا رسول اللہ ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے آپ کو منع کیا ہے ! ایک روایت میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھنے جا رہے ہیں جبکہ اس نے فلاں دن یوں کہا تھا، فلاں دن یوں کہا تھا……اس کی کئی باتیں ذکر کیں۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا :
[1] الأنفال8 :67۔68،صحیح مسلم : 1763