کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 308
چنانچہ وہ دف بجانے لگی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف بجاتی رہی۔پھرعلی رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف بجاتی رہی۔پھر عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف بجاتی رہی۔پھرعمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تواس نے دف کو نیچے پھینکا اور اس پر بیٹھ گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الشَّیْطَانَ لَیَخَافُ مِنْکَ یَا عُمَرُ )) ’’ عمر ! یقینا شیطان بھی آپ سے ڈرتا ہے۔‘‘[1] 5۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو موقف اختیار کرتے اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَقَدْ کَانَ فِیْمَا قَبْلَکُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُوْنَ، فَإِن یَّکُ فِیْ أُمَّتِیْ أَحَدٌ فَإِنَّہُ عُمَرُ )) ’’ تم سے پہلی امتوں میں کئی لوگ ایسے تھے جنھیں الہام کیا جاتا تھا۔اور اگر کوئی شخص میری امت میں یقینی طور پر ایسا ہو سکتاہے تو وہ عمر ہے۔‘‘[2] الہام سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کی زبان پر درست اور برحق بات کو جاری کردیتا۔اِس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے، جسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہٖ )) [3] ’’ بے شک اللہ تعالی نے عمر رضی اللہ عنہ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو رکھ دیا ہے۔‘‘ ابن عمر رضی اللہ عنہ مزید کہتے ہیں : ( مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ، فَقَالُوْا فِیْہِ، وَقَالَ فِیْہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، إِلَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلٰی نَحْوِ مِمَّا قَالَ عُمَرُ ) [4] ’’ جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا جس میں ان کی آراء مختلف ہوتیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوئی اور رائے پیش کرتے تو قرآن مجید انہی کی رائے کی تائید میں نازل ہو جاتا۔‘‘ اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( وَافَقْتُ رَبِّیْ فِیْ ثَلَاثٍ ) ’’ میں نے تین مسئلوں میں اپنے رب سے موافقت کی۔‘‘
[1] جامع الترمذی : 3690۔وصححہ الألبانی [2] صحیح البخاری : 3689، صحیح مسلم :2398 [3] جامع الترمذی : 3682۔وصححہ الألبانی [4] احمد فی المسند:5697 وصححہ الأرنؤوط