کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 307
گفتگو کر رہی تھیں اور آپ سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ آپ ہماری ضرورتیں پوری کریں اور ہمیں زیادہ نان ونفقہ دیں۔اسی دوران عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔چنانچہ خواتین اٹھیں اور جلدی جلدی پردہ کرنے لگیں۔رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دی۔وہ اندر آئے تو دیکھا رسول اللہ رضی اللہ عنہ ہنس رہے ہیں۔تو انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ( أَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ ) ’’ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے تعجب ان عورتوں پر ہے جو میرے پاس بیٹھی تھیں، آپ کی آواز سنی تو جلدی جلدی پردہ کرنے لگیں۔‘‘ تو انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! انھیں مجھ سے زیادہ آپ سے ڈرنا چاہئے تھا۔پھر انھوں نے خواتین کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’ اپنی جانوں کی دشمنو ! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ؟ ‘‘ تو انھوں نے کہا : ہاں، اس لئے کہ آپ بہت تند مزاج اور سنگدل ہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ! وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ سَالِکًا فَجاًّ قَطُّ إِلَّا سَلَکَ فَجاًّ غَیْرَ فَجِّکَ)) [1] ’’ اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ شیطان جب آپ کو کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ بھی آپ کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلا جاتا ہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ہم نے بچوں کا شور شرابہ سنا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دیکھا کہ ایک بچی رقص کررہی تھی اور چھوٹے چھوٹے بچے اس کے ارد گرد تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر اسے دیکھنے لگی……کچھ دیر بعد عمر رضی اللہ عنہ ظاہر ہوئے۔تو وہ سارے اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنِّیْ لَأنْظُرُ إِلٰی شَیَاطِیْنِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوْا مِنْ عُمَرَ)) [2] ’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ انسانوں اور جنوں میں سے شیاطین عمر رضی اللہ عنہ سے دور بھاگ گئے ہیں۔‘‘ اسی طرح بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ سے واپس لوٹے تو آپ کے پاس ایک کالے رنگ کی لڑکی آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالی نے آپ کو صحیح سالم واپس لوٹا دیا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور اشعار پڑھوں گی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم نے واقعتا نذر مانی تھی تو دف بجا لو، ورنہ نہیں۔
[1] صحیح البخاری :3683، صحیح مسلم : 2396 واللفظ لہ [2] جامع الترمذی :3691۔وصححہ الألبانی