کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 305
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ سے شادی کا پیغام بھیج دیا۔چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا نکاح کردیا۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا : آپ نے مجھے حفصہ سے شادی کیلئے شادی کی پیش کش کی تھی، میں خاموش ہوگیا تھا، جس پر آپ شاید مجھ سے خفا ہو گئے تھے ؟ اصل بات یہ ہے کہ آپ کی پیش کش کو ٹھکرانے سے مجھے اس کے علاوہ کسی چیز نے نہیں روکا تھا کہ میں جانتا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ کا تذکرہ کیا ہے۔اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس راز کو فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ سے نکاح نہ کرتے تو میں یقینا کرلیتا۔[1] حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر رضی اللہ عنہ سے شدید محبت کی دلیل ہے۔ 2۔عمر رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔چنانچہ ایک شخص آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِفْتَحْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ )) ’’ اس کیلئے ( دروازہ ) کھولو اور اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ میں نے دروازہ کھولا تو وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔میں نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنت کی بشارت دی تو انھوں نے الحمد للہ کہا ( یعنی اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔) پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِفْتَحْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ )) ’’ اس کیلئے بھی( دروازہ ) کھول دو اور اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ میں نے دروازہ کھولا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔میں نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنت کی بشارت دی تو انھوں نے بھی الحمد للہ کہا ( یعنی اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔) اس کے بعد ایک اور آدمی آیا اور اس نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِفْتَحْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ عَلٰی بَلْوٰی تُصِیْبُہُ )) ’’ اس کیلئے بھی( دروازہ ) کھول دو اور اسے جنت کی بشارت دے دو۔( اور یہ بھی بتا دو کہ ان پر ) ایک مصیبت آئے گی۔‘‘ میں نے دروازہ کھولا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔میں نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنت کی بشارت دی تو انھوں نے بھی الحمد للہ کہا ( یعنی اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔) پھر کہا : ( اَللّٰہُ الْمُسْتَعَان ) ’’ میں اللہ تعالی سے ہی مدد
[1] صحیح البخاری :5122