کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 302
’’ عمر نے جب اسلام قبول نہیں کیا تھا تو انھوں نے مجھے اور اپنی بہن ( فاطمہ ) کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باندھ رکھا تھا۔‘‘[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید خواہش تھی کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرلیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصی طور پر یہ دعا فرمایا کرتے تھے : (( اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الإِْسْلَامَ بِأَحَبِّ ہَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِیْ جَہْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ )) وَکَانَ أَحَبَّہُمَا إِلَیْہِ عُمَرُ۔[2] ’ اے اللہ ! ابو جہل اور عمر بن الخطاب میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہو اس کے ساتھ اسلام کو تقویت دے۔‘‘ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ان دونوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کی اور عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے صحیح ترین روایات کے مطابق چھبیس سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کا جو سبب بیان کیا جاتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ اپنی بہن فاطمہ اور ان کے خاوند سعید بن زید کے پاس گئے، انھیں مارا، پھر ان سے سورۃ طہ کی تلاوت سنی تو اسلام قبول کرنے پر تیار ہو گئے ! تو یہ واقعہ مشہور ضرور ہے لیکن صحیح نہیں ہے اور محدثین کے نزدیک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکا۔ اس سلسلے میں ایک اور واقعہ مسند احمد میں روایت کیا گیا ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سورۃ الحاقہ کی تلاوت سنی تو اس سے ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوگئی۔لیکن مسند احمد کی یہ روایت مرسل ہے۔اس لئے اسے بھی محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔[3] البتہ جو بات سب سے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کا آپ پر شدید اثر ہوا اور آپ اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔وہ واقعہ امام بخاری نے ( باب إسلام عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ ) میں ذکر کیا ہے۔وہ واقعہ کیا ہے ؟ آئیے وہ واقعہ سماعت کیجئے : ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ( عمر رضی اللہ عنہ ) کو جب کبھی یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرا خیال ہے کہ ایسے ہونے والا ہے، تو وہ ویسے ہی ہوجاتا تھا۔ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت آدمی گزرا۔تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یا میرا گمان غلط ہے، یا پھر یہ آدمی جاہلیت کے زمانے میں کاہن ہوا ہے یا کافر ہی
[1] صحیح البخاری : 3867 [2] جامع الترمذی :3681۔وصححہ الألبانی [3] مسند أحمد :107۔ضعفہ الأرنؤوط