کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 301
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو صفوں میں نکالا، ایک میں حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری میں میں تھا۔یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوئے……اس دن مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ الفاروق ‘ کا لقب نوازا……تو اِس قسم کی تمام روایات انتہائی ضعیف ہیں۔[1]
اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ِاس لقب کے ساتھ انھیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پکارا ہوگا۔کیونکہ اللہ تعالی نے بلاشبہ آپ کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو قوت وعزت بخشی اور ان کے ذریعے حق وباطل میں فرق کیا۔
جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے : ( مَا زِلْنَا أَعِزَّۃً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ ) [2]
’’ جب سے عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت سے ہم طاقتور بن گئے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں : ’’ ہم بیت اللہ میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا، چنانچہ ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہم اس میں نماز پڑھنے لگے۔‘‘[3]
یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد خلیفہ بنایا گیا تو آپ کو ’ امیر المؤمنین ‘ کا لقب دیا گیا۔اور تاریخ اسلام میں سب سے پہلے آپ ہی کو اس لقب سے پکاراگیا۔کیونکہ اس سے پہلے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا۔تاہم اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سب سے پہلے جس نے آپ کو ’ امیر المؤمنین ‘ کے لقب کے ساتھ ذکر کیا وہ عراق سے آئے ہوئے دو افراد تھے جن کے نام تھے : لبید بن ربیعہ اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہما۔[4]
قبولِ اسلام :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں اعلان ِ نبوت فرمایا اور ابتداء میں چند کمزور لوگوں نے اسلام قبول کیا تو عمر رضی اللہ عنہ ان کے شدید مخالف تھے اور ان میں سے بعض کو عذاب بھی دیا کرتے تھے۔اِس کی دلیل ان کے بہنوئی جناب سعید بن زید رضی اللہ عنہ ( جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں ) کا یہ قول ہے :
( لَوْ رَأَیْتُنِیْ مُوْثِقِی عُمَرُ عَلَی الْإِسْلَامِ أَنَا وَأُخْتُہُ، وَمَا أَسْلَمَ )
[1] السلسلۃ الضعیفۃ :6531
[2] صحیح البخاری:3684،3863
[3] طبقات ابن سعد:3 /1/193
[4] الأدب المفرد للبخاری : ص353۔وصححہ الألبانی فی صحیح الأدب المفرد :390