کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 293
میں نے اسے مزدوری پیش کی تو وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا۔چنانچہ میں اسی کے چاولوں کو کاشت کرتا رہا، یہاں تک کہ اس کے ذریعے گائیں اور چرواہا جمع کرلیا۔پھر وہ میرے پاس آیا تو کہنے لگا : اللہ سے ڈر اور میرے اوپر ظلم نہ کر اور مجھے میری مزدوری دے دے۔میں نے کہا : جاؤ، وہ گائیں اور ان کا چرواہا لے جاؤ۔اس نے کہا : اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کر۔میں نے کہا : میں تمھارے ساتھ مذاق نہیں کر رہا، جاؤ وہ گائیں اور چرواہا لے جاؤ۔چنانچہ وہ لے کر چلا گیا۔اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو بقیہ پتھر کو بھی ہم سے ہٹا دے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اُس پتھر کو غار کے منہ سے مکمل طور پر ہٹا دیا۔‘‘ [1] اِس واقعہ میں غور کریں کہ اس آدمی نے اپنی چچا زاد سے برائی کرنے کیلئے کئی پاپڑ بیلے، جدو جہد اور محنت کرکے اس کیلئے سو دینار جمع کئے، پھر بدکاری کے عین قریب پہنچ گیا، لیکن جب لڑکی نے کہا : اللہ سے ڈر۔تو وہ اللہ سے ڈر گیا اور اس نے برائی کو ترک کردیا۔یہ ہے وہ تقوی اور پرہیز گاری کہ جس کو اللہ تعالی اس کی توفیق دیتا ہے، تو وہ خوش نصیب ہو جاتا ہے اور قیامت کے روز باری تعالی کے عرش کے سائے تلے جمع ہونے والے لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ 6۔عرش باری تعالی کے سائے تلے جمع ہونے والے لوگوں میں چھٹی قسم کے لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاہَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ )) ’’ وہ آدمی جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔‘‘ یعنی جو شخص انتہائی خفیہ انداز سے صدقہ کرے، چاہے بڑا صدقہ ہو یا چھوٹا اور کسی کو پتہ ہی نہ چلنے دے کہ اس نے کچھ خرچ کیا ہے، تو یقینا وہ بھی ان خوش نصیب لوگوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خفیہ طور پر کئے گئے صدقے کو اُس صدقے سے بہتر قرار دیا ہے جو ظاہری طور پر کیا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَإِن تُخْفُوہَا وَتُؤْتُوہَا الْفُقَرَائَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ
[1] صحیح البخاری۔الأدب باب إجابۃ دعاء من بر والدیہ :5974،صحیح مسلم : 2743