کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 292
’’ تین آدمی پیدل جا رہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہو گئی جس کی وجہ سے انھیں پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لینا پڑی۔جب وہ غار کے اندر چلے گئے تو پہاڑ سے ایک پتھر غار کے منہ پر آگرا جس سے اس کا منہ بند ہو گیا۔اب وہ آپس میں کہنے لگے : دیکھو ! وہ نیک اعمال جو تم نے خالصتا اللہ تعالی کی رضا کیلئے کئے ہوں، آج انہی اعمال کو اللہ تعالی کے سامنے پیش کرکے دعا کرو، شاید وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دے دے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا : اے اللہ ! میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔میں بکریاں چراتااور ان کیلئے دودھ لے آتا تھا۔اور شام کو جب میں گھر واپس لوٹتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پیش کرتا، پھر اپنے بچوں کو دیتا۔ایک دن میں چراہگاہ دور ہونے کی وجہ سے گھر تاخیر سے پہنچا۔تو میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں۔میں نے دودھ لیا اور ان کے سر کے قریب کھڑا ہو کر ان کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا۔اور میں اس بات کو ناپسند کرتا تھاکہ میں خود انھیں جگاؤں اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میں بچوں کو ان سے پہلے دودھ پلاؤں حالانکہ بچے بھوک کی وجہ سے میرے پیروں کے قریب بلبلا رہے تھے۔لہذا میں اسی طرح ان کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا، وہ سوئے رہے اور میرے بچے بلبلاتے رہے حتی کہ فجر ہو گئی۔( اے اللہ! ) تجھے معلوم ہے کہ میں نے وہ عمل صرف تیری رضا کیلئے کیا تھا۔لہذا تو اس پتھر کو کم از کم اتنا ہٹا دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں۔چنانچہ اللہ تعالی نے اس کی دعا قبول کی اور اس پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ وہ آسمان کو دیکھ سکتے تھے۔ اور دوسرے آدمی نے کہا : اے اللہ ! میری ایک چچا زاد تھی جس سے میں شدید محبت کرتا تھا جیسا کہ مرد عورتوں سے محبت کرتے ہیں۔چنانچہ میں نے اس سے اس کے نفس کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے انکار کردیا جب تک کہ میں اسے ایک سو دینار نہ دوں۔میں نے کوشش کرکے سو دینار جمع کر لئے۔پھر اس سے ملا اور اسے سو دینار دے دئیے۔اور جب میں اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا تو اس نے کہا : ( یَا عَبْدَ اللّٰہِ ! اِتَّقِ اللّٰہَ، وَلَا تَفْتَحِ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّہٖ ) ’’ اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور میری بکارت کو بغیر نکاح کے ختم نہ کر۔‘‘ چنانچہ میں اسے چھوڑ کر چلا گیا۔اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے وہ کام تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو ہماری یہ مشکل ٹال دے۔چنانچہ اللہ تعالی نے اس پتھر کو اور زیادہ ہٹا دیا۔ اب تیسرا آدمی دعا کرنے لگا۔اس نے کہا : اے اللہ ! میں نے ایک مزدور کو مزدوری پر لگایا، اِس شرط پر کہ میں اسے تین صاع کے برابر چاول دوں گا۔جب اس نے کام پورا کردیا تو اس نے کہا : میری مزدوری مجھے دو۔