کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 291
فِیَّ،وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ [1])) ’’ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے : میری محبت ان لوگوں کیلئے واجب ہو جاتی ہے جو میری رضا کیلئے ایک دوسرے سے محبت کرتے، ایک دوسرے سے مل بیٹھتے، ایک دوسرے کی زیارت کرتے اور ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘ 5۔عرش باری تعالی کے سائے تلے جمع ہونے والے لوگوں میں سے پانچویں قسم کے لوگ وہ ہیں جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا : (( وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ : إِنِّی أَخَافُ اللّٰہَ )) ’’وہ آدمی جس کو ایک عہدے دار، خوبصورت عورت نے دعوتِ ( زنا ) دی تو اس نے کہا : میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔‘‘ ایک عہدے دار اور خوبصورت خاتون خود برائی کی دعوت دے رہی ہو، تو اس سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔لیکن اس شخص کیلئے یہ بڑا ہی آسان ہوتا ہے جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہو۔جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہ کی بیوی نے اپنے شاہی محل میں، دروازوں کو بند کرکے برائی کی دعوت دی، تو انھوں نے کہا : ( مَعَاذَ اللّٰہ ) یعنی اللہ کی پناہ ! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ واقعتا اللہ تعالی سے ڈرتے تھے۔ اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اس کی معصیت ونافرمانی کو چھوڑنا متقی وپرہیزگار کی ایک اہم علامت ہے۔اور جس شخص میں یہ علامت پائی جاتی ہو وہ یقینا خوش نصیب ہے۔اس کو اللہ تعالی ایک تو ارض ِ محشر میں اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا۔دوسرا اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی ٭ فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی﴾ [2] ’’ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہو گا اور اپنے نفس کو خواہش ( کی پیروی کرنے ) سے روکا ہو گا تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔‘‘ اور جو شخص بدکاری کے عین قریب پہنچ چکا ہو اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو، مگر وہ اللہ تعالی سے ڈر کر اسے چھوڑ دے، تو ایسا شخص مستجاب الدعوات ہوتا ہے اور اگر وہ مشکلات میں گھر جائے تو اللہ تعالی اس کی مدد کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[1] صحیح الترغیب والترہیب :3018 [2] النازعات79 : 40۔41