کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 286
اسی طرح اللہ تعالی نے تمام اہل ِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ جب اقتدار میں ہوں اور ان کے پاس فیصلے کرنے کا اختیار ہو تو وہ عدل وانصاف کریں۔
باری تعالی کا فرمان ہے : ﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ﴾ [1]
’’ بے شک اللہ تعالی تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کو ادا کردیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے لگو تو عدل کے ساتھ فیصلے کیا کرو۔اللہ تعالی یقینا تمھیں اچھی نصیحت کرتا ہے۔‘‘
عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے لوگوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَلٰی مَنَابِرَ مِن نُّوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ،اَلَّذِیْنَ یَعْدِلُونَ فِی حُکْمِہِمْ وَأَہْلِیْہِمْ وَمَا وَلُوْا)) [2]
’’ بلا شبہ عدل وانصاف کرنے والے لوگ اللہ تعالی کے ہاں نور سے بنے ہوئے ان منبروں پر ہونگے جو رحمن کے دائیں طرف ہونگے۔اور اس کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔یہ وہ لوگ ہونگے جو اپنے فیصلوں میں، اپنے گھر والوں میں اور اپنی ہر ذمہ داری میں انصاف کرتے تھے۔‘‘
اورجو حاکم یا قاضی یا وزیر یا افسر اپنی رعایا کے ساتھ ناانصافی اور ظلم وزیادتی کرے تو اس کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیْہِ اللّٰہُ رَعِیَّۃً، یَمُوتُ یَوْمَ یَمُوتُ وَہُوَ غَاشٌّ لِرَعِیَّتِہٖ، إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ)) [3]
’’ جس بندے کو اللہ تعالی کسی رعایا کی ذمہ داری سونپے، پھر وہ اپنی موت کے وقت اپنی رعایا سے دھوکا کر رہاہو تو اس پر اللہ تعالی جنت کو حرام کردیتا ہے۔‘‘
2۔((وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَۃِ اللّٰہِ ))
’’وہ نوجوان جس کی نشو ونما اللہ کی عبادت کے ساتھ ہوئی۔‘‘
[1] النساء4 :58
[2] صحیح مسلم : 1827
[3] صحیح البخاری :7151، وصحیح مسلم :142 واللفظ لمسلم