کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 285
ان تنبیہات کے بعد آئیے اب ہم اس حدیث میں مذکور سات قسم کے لوگوں کا تذکرہ تفصیل سے کرتے ہیں۔ (اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ ) ’’عادل حکمران۔‘‘ ان خوش نصیب لوگوں میں سے پہلا شخص ہے : عدل وانصاف کرنے والا حکمران، جو اپنی حکمرانی کے دور میں رعایا کے ساتھ خود بھی عدل وانصاف کرے اور اپنی مملکت کے باقی تمام چھوٹے بڑے ذمہ داران کو بھی عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کاحکم دے۔وہ خود بھی اپنی رعایا پر ظلم وزیادتی نہ کرے اور اپنے وزیروں، مشیروں اور تمام محکموں کے افسروں کو بھی اس سے منع کرے۔ ( اَلْإِمَامُ )سے مراد صرف اعلی حکمران ( ملک کا سربراہ ) ہی نہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔مثلا قاضی اور افسران ِ بالا وغیرہ۔ اور ( اَلْعَادِلُ ) سے مراد وہ ہے جو بغیر افراط وتفریط کے اللہ تعالی کے دین کے مطابق فیصلہ کرے۔ اللہ رب العزت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ ﴿یٰدَاوٗدُ اِِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ﴾ [1] ’’ اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔لہٰذا لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا اور خواہش نفس کی اتباع نہ کرنا، ورنہ یہ بات آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔‘‘ آپ غور کریں کہ اللہ تعالی نے انصاف پر مبنی فیصلے کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ خواہش نفس کی پیروی کرنے سے بھی منع کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص فیصلہ کرتے وقت چاہے اپنی خواہش نفس کی پیروی کرے یا لوگوں کی خواہشات کو مد نظر رکھے تو اس کے فیصلے انصاف پر مبنی نہیں ہوتے۔بلکہ اس کے فیصلوں میں بے انصافی اورحتی کہ ظلم تک بھی پایا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح کا حکم اللہ تعالی نے اپنے آخری پیغمبر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا۔چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِِّ ﴾ [2] ’’ لہٰذا آپ ان کے درمیان فیصلے اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق کیجئے اور ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلئے کہ آپ کے پاس حق آچکا ہے۔‘‘
[1] ص38 :26 [2] المائدۃ5 :48