کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 284
’’ جب لوگ رب العالمین کیلئے کھڑے ہو نگے تو اس دن ان میں سے ایک اپنے پسینے میں اپنے کانوں کے درمیان تک چھپ رہا ہو گا۔‘‘
عزیزان گرامی ! اِس طرح کی صورتحال میں کوئی سایہ نہ ہوگا سوائے عرش ِ باری تعالی کے سائے کے۔اور اُس سائے میں چند خوش نصیب لوگوں کو ہی جگہ ملے گی۔یہ خوش نصیب لوگ کون ہونگے ! ان کے بارے میں آپ نے حدیث سماعت کی۔آئیے اب ان حضرات کا تذکرہ قدرے تفصیل سے کرتے ہیں۔لیکن اِس کی تفصیلات میں جانے سے قبل کچھ تنبیہات :
٭ پہلی تنبیہ یہ ہے کہ حدیث میں جو ( سبعۃ ) کا لفظ آیا ہے، جس کا معنی ہے سات، تو اس سے مراد سات افراد نہیں، بلکہ سات قسم کے لوگ ہیں۔کیونکہ حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اوصاف ذکر کئے ہیں۔چنانچہ یہ اوصاف جن لوگوں میں بھی ہونگے وہ عرش ِ باری تعالی کے سائے تلے جمع ہونگے۔
٭ دوسری تنبیہ یہ ہے کہ یہ خوش نصیب لوگ صرف مردوں میں سے ہی نہیں ہونگے، بلکہ جن خواتین میں یہ صفات ہونگی، وہ بھی ان حضرات میں شامل ہونگی۔
٭ تیسری تنبیہ یہ ہے کہ عرش باری تعالی کے سائے تلے جمع ہونے والے خوش نصیب لوگ صرف سات قسم کے ہی نہیں ہونگے، بلکہ ان میں کچھ اور لوگ بھی شامل ہیں، جن کا ذکر دیگر احادیث میں کیا گیا ہے۔اور ہم خطبہ کے آخر میں ان کا بھی تذکرہ کریں گے۔ان شاء اللہ تعالی
٭ چوتھی تنبیہ یہ ہے کہ ہم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جو حدیث ذکرکی ہے اس میں یہ ہے کہ(( فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ )) یعنی ان خوش نصیب لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا اور اس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا۔جبکہ اسی حدیث کی ایک اور روایت جو سنن سعید بن منصور میں ہے اور اس کی سند کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں حسن قرار دیا ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں : (( سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّ عَرْشِہٖ……)) یعنی سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا……اسی طرح بعض دیگر روایات میں بھی ہے کہ یہ سایہ اللہ تعالی کے عرش کا ہوگا۔ہم یہ روایات آگے چل ذکر کریں گے ان شاء اللہ تعالی۔تو اس کے بارے میں اگرچہ اہل علم کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں، تاہم سلف صالحین کی ایک بہت بڑی جماعت اس بات کی قائل ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کرتے ہوئے اس سے مراد عرش ِ باری تعالی کا سایہ ہی ہے۔جبکہ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالی کا سایہ ہے۔اور اس کی کیفیت خود اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔چونکہ حدیث میں اللہ کے سائے کا ذکر ہے اس لئے اسے بغیر تاویل وتکییف کے ماننا ضروری ہے۔