کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 277
’’اور یتیموں کو ان کے مال واپس کردو۔اور ان کی کسی اچھی چیز کے بدلے انھیں گھٹیا چیز نہ دو۔اور ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے یتیموں کے سرپرستوں کو تین قسم کے احکامات جاری فرمائے ہیں۔ پہلا یہ کہ یتیموں کے مال یتیموں کو واپس کردو، یعنی جب یتیم بچے بالغ اور با شعورہو جائیں اور مالی معاملات کو خود سنبھالنے کے لائق ہو جائیں تو انھیں ان کے مال واپس لوٹا دو۔تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق انھیں استعمال میں لا سکیں۔ دوسرا یہ کہ ان کی کسی اچھی چیزکے بدلے انھیں کوئی گھٹیا چیز نہ دیا کرو۔کیونکہ جاہلیت کے دور میں یتیموں کے سرپرست یتیموں کا عمدہ مال اور ساز وسامان اپنے پاس رکھ لیا کرتے تھے اور اس کے بدلے انھیں اپنا گھٹیا مال اور حقیر ساز وسامان دے دیا کرتے تھے۔اللہ تعالی نے انھیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ تیسرا یہ کہ اپنے اور یتیموں کے مال خلط ملط کرکے یتیموں کے مال کھانے کی کوشش نہ کیا کرو۔کیونکہ جاہلیت کے دور میں لوگ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔سو اللہ تعالی نے اس سے بھی منع کردیا۔ پھر آیت کے آخر میں یتیموں کے مال کھانے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا۔ یتیموں کا مال کھانا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کا بدلہ کیا ہے اس کا اندازہ آپ اللہ تعالی کے اس فرمان سے کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا ﴾[1] ’’وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھر تے ہیں اور وہ عنقریب جہنم کی آگ میں داخل ہونگے۔‘‘ عزیز القدر بھائیو ! یتیموں کامال کھانا تو دور کی بات، اللہ تعالی نے ان کے مال کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغُ اَشُدَّہٗ﴾[2] ’’اور یتیم کے مال کے قریب تک نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو اس کے حق میں بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے۔‘‘
[1] النساء4 :10 [2] الأنعام6 :152