کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 271
اسی طرح امّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بھی یہ مروی ہے کہ ایک لونڈی نے ان پر جادو کردیا تو انھوں نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا۔[1]
انہی دلائل کی بناء پر علمائے امت کا جادوگر کے بارے میں فیصلہ ہے کہ وہ واجب القتل ہے۔چنانچہ
(۱) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ جادوگر ‘جو جادو کا عمل خود کرتا ہو اور کسی نے اس کیلئے یہ عمل نہ کیا ہو‘ تواس کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ﴿وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہٗ مَا لَہٗ فِیْ الْآخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ﴾’’ اور وہ یہ بات بھی خوب جانتے تھے کہ جو ایسی باتوں کا خریدار بنا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘
لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ وہ جب خودجادو کا عمل کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔‘‘[2]
(۲) امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جادوگر کی سزا قتل ہے۔اور یہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مثلا عمر، عثمان، ابن عمر، حفصہ، جندب بن عبداللہ، جندب بن کعب، قیس بن سعد رضی اللہ عنہم اور عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے۔اور یہی مذہب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔‘‘ [3]
(۳) اِمام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿وَلَو اَنَّہُمْ آمَنُوْا وَاتَّقَوْا…﴾ سے ان علماء نے دلیل لی ہے جو جادوگر کو کافر کہتے ہیں۔اور وہ ہیں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ کا ایک گروہ۔جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور (دوسری روایت کے مطابق) امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جادوگر کافر تو نہیں ہوتا البتہ واجب ُالقتل ضرور ہوتا ہے۔جادوگر کو قتل کردینا تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح ثابت ہے۔‘‘ [4]
جادو گر اور نجومی کے پاس جانا حرام ہے
عزیزان گرامی ! ہم نے جو دلائل اب تک ذکر کئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جادوگر جادو کرکے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔اور وہ امت محمدیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔اسی لئے وہ واجب القتل بھی ہوتا ہے۔لہٰذا اِس طرح کے مجرم کے پاس جانا ہی درست نہیں ہے۔بلکہ یہ حرام ہے۔
[1] معرفۃ السنن والآثار للبیہقی:/12 203
[2] الموطّا (628) کتاب العقول باب ماجاء فی الغیلۃ والسحر
[3] المغنی:8 / 106
[4] تفسیر ابن کثیر:144/1