کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 270
سے کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔اور ایسی باتیں سیکھ لیتے ہیں جن میں فائدہ کچھ نہیں، نقصان ہی نقصان ہے۔اور انھیں (یہودیوں کو )یہ معلوم ہے کہ جو کوئی (ایمان دے کر) جادو خریدے وہ آخرت میں بدنصیب ہے۔اگر وہ سمجھتے ہوتے تو جس کے عوض انھوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا اس کا بدلہ برا ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جادو کا علم سیکھنا کفر ہے۔‘‘ [1] اسی طرح ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ’’جادو سیکھنا اور سکھانا حرام ہے۔اور اس میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔لہٰذااسے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے خواہ وہ اس کی تحریم کا عقیدہ رکھے یا اباحت کا۔‘‘ [2] شریعت میں جادوگر کے متعلق فیصلہ چونکہ قرآن مجید کی رو سے جادو سیکھنا اور اس کی تعلیم دینا کفر ہے، اس لئے شریعت کی نظر میں جادو گر انتہائی برا انسان ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطِیِّرَ لَہٗ، أَوْ تَکَھَّنَ أَوْتُکُھِّنَ لَہٗ، أَوْتَسَحَّرَ أَوْتُسُحِّرَ لَہٗ )) [3] ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو فال نکالے یا نکلوائے، کہانت کرے یا کروائے، جادو کرے یا کروائے۔‘‘ اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ وہ شخص امت ِ محمدیہ سے خارج ہے جو جادو کرے یا کرائے۔یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں ایک جادو گر کو دیکھا جو جادو کے کرتب دکھلا رہا تھا تو اسے اپنی تلوار کے ساتھ قتل کردیا۔ اس واقعہ کی سند کو شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے۔[4] اسی طرح بَجالۃ بن عَبدۃ بیان کرتے ہیں کہجناب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اپنے امراء کے نام حکم نامہ جاری فرمایا تھا کہ ( اُقْتُلُوا کُلَّ سَاحِرٍ وَسَاحِرَۃٍ ) ’’ ہر جادو گر مرد اور ہر جادو گر عورت کو قتل کردو۔‘‘ چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا۔[5]
[1] فتح الباری:10 / 225 [2] المغنی:10 / 106 [3] صحیح الجامع الصغیر:5435 [4] سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ :1446 [5] أخرج أصل الحدیث البخاری:3156، وأبوداؤد :3043،والبزار۔البحر الزخار:1060۔وصححہ الألبانی فی تخریج أبی داؤد :3043