کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 267
اور ابن منظور اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ساحر (جادوگر) جب باطل کو حق بنا کر پیش کرتا ہے اور کسی چیز کو اس کی حقیقت سے ہٹا کر سامنے لاتا ہے تو گویا وہ اسے دینی حقیقت سے پھیر دیتا ہے۔‘‘[1] اسی طرح امام ابن قدامہ المقدسی کہتے ہیں: ’جادو‘ ایسی گرہوں اور ایسے دَم درود اور اُن الفاظ کا نام ہے جنہیں بولا یا لکھا جائے، یا یہ کہ جادو گر ایسا عمل کرے جس سے اس شخص کا بدن یا دل یا عقل متاثر ہوجائے جس پر جادو کرنا مقصود ہو۔[2] خلاصہ یہ ہے کہ ’ سحر‘ جادوگر اور شیطان کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کا نام ہے جس کی بنا پر جادوگر کچھ حرام اور شرکیہ امور کا ارتکاب کرتا ہے اور شیطان اس کے بدلے میں جادوگر کی مدد کرتا اور اس کے مطالبات کو پورا کرتا ہے۔ شیطان کو راضی کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جادوگروں کے مختلف وسائل ہیں۔ ٭ چنانچہ بعض جادوگر اس مقصد کے لئے قرآن مجید کو ( نعوذ باللہ ) اپنے پاؤں سے باندھ کر بیت الخلا میں جاتے ہیں۔ ٭ اور بعض قرآن مجید کی آیات کو ( نعوذ باللہ) گندگی سے لکھتے ہیں۔اور بعض انہیں ( نعوذ باللہ ) حیض کے خون سے لکھتے ہیں۔ ٭ بعض قرآنی آیات کو ( نعوذ باللہ ) اپنے پاؤں کے نچلے حصوں پر لکھتے ہیں۔ ٭کچھ جادوگر سورۃ الفاتحہ کو الٹا لکھتے ہیں۔ ٭کچھ بغیر وضو کے نماز پڑھتے ہیں۔ ٭کچھ ہمیشہ حالت ِجنابت میں رہتے ہیں۔ ٭ کچھ جادوگروں کو شیطان کے لئے جانور ذبح کرنا پڑتے ہیں اور وہ بھی بسم اللہ پڑھے بغیر۔اور ذبح شدہ جانور کو شیطان کی بتائی ہوئی جگہ پر پھینکنا پڑتا ہے۔ ٭بعض جادوگر ستاروں کو سجدہ کرتے اور ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ٭ بعض کو اپنی ماں یا بیٹی سے زنا کرنا پڑتا ہے۔ ٭اور کچھ جادو گروں کو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں ایسے الفاظ لکھنا پڑتے ہیں جن میں کفریہ معانی پائے جاتے ہیں۔
[1] لسان العرب :348/4 [2] المغنی:10 / 104