کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 260
اسی طرح کسی بھی شخص کی عزت کو داغدار کرنا اور اس پر کسی بھی قسم کی تہمت لگانا حرام ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی زبانوں کی حفاظت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں زبان کی تمام آفات سے محفوظ رکھے۔ دوسرا خطبہ محترم حضرات ! ’ زبان ‘ کی پندرہ آفات آپ نے سنیں، ہم سب کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان تمام آفات سے اپنی زبانوں کو بچائیں۔اور اپنی زبانوں سے صرف خیر ہی کی گفتگو کریں، ورنہ خاموش رہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ ) [1] ’’ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو وہ خیر ہی کی بات کرے، ورنہ خاموش رہے۔‘‘ ’خیر ‘ کی گفتگو سے مراد ہر ایسی بات ہے جس سے اللہ تعالی راضی ہو۔مثلا ذکر اللہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ۔ حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ( إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلاَمِ قَدْ کَثُرَتْ عَلَیَّ، فَأَخْبِرْنِیْ بِشَیْئٍ أَتَشَبَّثُ بِہٖ ) ’’ شریعت کے احکامات ( میری کمزوری کی وجہ سے ) مجھ پر غالب آ چکے ہیں، لہذا آپ مجھے کوئی ( آسان سا) کام بتا دیں جس پر میں ( فرائض کے بعد ) ہمیشہ عمل کرتا رہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا بِذِکْرِ اللّٰہِ ) ’’ تمہاری زبان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ تر رہے۔‘‘ [2] اور ایک حدیث مبارک میں ہے کہ ہر پاکیزہ کلمہ صدقہ لکھا جاتا ہے۔لہٰذا ہمیں اپنی زبان سے ہمیشہ پاکیزہ کلمات ہی بولنے چاہئیں۔اگر ہم ایسا نہ کرسکیں تو پھر خاموشی میں ہی خیر اور نجات ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( مَنْ صَمَتَ نَجَا ) ’’ جو شخص خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔‘‘[3]
[1] صحیح البخاری :6018، صحیح مسلم :47 [2] جامع الترمذی :3375۔وصححہ الألبانی [3] جامع الترمذی : 2501۔وصححہ الألبانی