کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 254
(ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ……اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ، وَالْمَنَّانُ الَّذِیْ لَا یُعْطِیْ شَیْئًا إِلَّا مَنَّہُ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ ) [1]
’’ تین افراد سے اللہ تعالی قیامت کے روز نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا : اپنا تہہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، احسان جتلانے والا جو جب بھی کوئی چیز دیتا ہے تو اس پر احسان جتلاتا ہے اور جھوٹی قسم اٹھا کر اپنا سودا بیچنے والا۔‘‘
9۔کسی کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولنا
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذاق میں غلط بیانی کرنا یا جھوٹ بولنا یا جھوٹے لطیفے سنانا جائز ہے حالانکہ جھوٹ بہر حال جھوٹ ہی ہے اور مذاق میں بھی اس کا گناہ اتنا ہی ہے جتنا سنجیدگی میں جھوٹ بولنے کا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( وَیْلٌ لِلَّذِیْ یُحَدِّثُ بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ، وَیْلٌ لَہُ، وَیْلٌ لَہُ )
’’ اس شخص کیلئے ہلاکت ہے جو لوگوں کو کوئی جھوٹی بات بیان کرے تاکہ وہ ہنسیں، اس کیلئے ہلاکت ہے، اس کیلئے ہلاکت ہے۔‘‘[2]
10۔مذاق اڑانا یا برے القاب سے پکارنا
مسلمانوں میں سے کسی کو حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے آپ کو اس سے بہتر تصور کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑانا یا اسے برے لقب سے یاد کرنا حرام ہے۔اور یہ بھی زبان کی آفتوں میں سے ایک آفت ہے۔
اللہ تعالی مومنوں کو ایک دوسرے کا مذاق اڑانے یا برے القاب کے ساتھ پکارنے سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَّکُونُوا خَیْْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَائٌ مِّن نِّسَائٍ عَسَی أَن یَّکُنَّ خَیْْرًا مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ﴾ [3]
’’ ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں۔اور نہ عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔اور آپس میں ایک دوسرے کوعیب نہ لگاؤ ا ور نہ ایک دوسرے کا بُرا لقب رکھو۔‘‘
[1] صحیح مسلم :106، جامع الترمذی :1211
[2] سنن أبی داؤد :4990۔وحسنہ الألبانی
[3] الحجرات49 :11