کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 247
( إِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَانِ اللّٰہِ مَا یَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، فَیَکْتُبُ اللّٰہُ لَہُ بِہَا رِضْوَانَہُ إِلٰی یَوْمِ یَلْقَاہُ، وَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ مَا یَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، فَیَکْتُبُ اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا سَخَطَہُ إِلٰی یَوْمِ یَلْقَاہُ ) [1] ’’ بے شک تم میں سے کوئی شخص اللہ کو راضی کرنے والے کلمات میں سے ایک کلمہ بولتا ہے، اسے پتہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک کلمہ اتنے بڑے مرتبہ کو پہنچ گیا ہے، لیکن اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کیلئے اُس دن تک اپنی رضا کو لکھ دیتا ہے جب اُس کی اللہ سے ملاقات ہوگی۔اور تم میں سے کوئی شخص اللہ کوناراض کرنے والے کلمات میں سے ایک کلمہ بولتا ہے، اسے پتہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک کلمہ اِس قدر سنگین ہے، لیکن اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پراُس دن تک اپنی ناراضگی کو لکھ دیتا ہے جب اُس کی اللہ سے ملاقات ہوگی۔‘‘ قیامت کے دن تک رضامندی کو لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اسے دنیا میں اپنی اطاعت وفرمانبرداری اور نیک اعمال کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اسے برے اعمال سے بچنے کی توفیق دیتا ہے۔پھر اس کا خاتمہ بھی ایمان اور عمل صالح پر کرتا ہے۔اس کے بعد اس کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنا دیتا ہے۔پھر قیامت کے دن اسے اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا اور آخر کار اسے جنت میں داخل کردے گا۔ اور دوسری صورت میں ناراضگی لکھنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی اسے اعمال صالحہ کی توفیق نہیں دیتا۔چنانچہ وہ گناہوں میں بری طرح ڈوب جاتا ہے۔پھر اسے اچھا خاتمہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔مرنے کے بعد اس کی قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بن جاتی ہے۔اور قیامت کے روز بھی اسے اللہ تعالی کی ناراضگی اور اس کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔والعیاذ باللہ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ، مَا یَتَبَیَّنُ مَا فِیْہَا،یَہْوِیْ بِہَا فِی النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ) [2] ’’ بے شک ایک بندہ ایک لفظ بولتا ہے جس کے بارے میں اسے پتہ نہیں ہوتا کہ اس میں کیا وبال ہے ! لیکن وہ اُس کی وجہ سے مشرق ومغرب کے درمیان جو مسافت ہے اس سے بھی زیادہ جہنم میں نیچے چلا جاتا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی زبان کو پکڑ کر کہتے تھے : ( یَا لِسَانُ ! قُلْ خَیْرًا تَغْنَمْ، وَاسْکُتْ عَنْ شَرٍّ تَسْلَمْ، مِنْ قَبْلِ أَنْ تَنْدَمَ )
[1] جامع الترمذی :2319۔وصححہ الألبانی [2] صحیح البخاری :6477،صحیح مسلم :۲۹۸۸ واللفظ لہ