کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 242
البتہ ایک بات آپ کی توجہ کیلئے بہت ہی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک ہم نے جو گفتگو کی ہے اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ آپ دنیا سے اور دنیاوی معاملات سے بالکل ہی لا تعلق ہو جائیں اور ’رہبانیت ‘ اختیار کر لیں۔ہمارے دین میں وہ رہبانیت نہیں ہے جسے نصاری نے گھڑ لیا تھا۔ بلکہ ہماری پوری گفتگو کا مدعا یہ ہے کہ دنیا یقینی طور پر فانی ہے اور اس کی زیب وزینت اور آسائشیں عارضی ہیں، جو انسان کو اپنے فتنے میں مبتلا کرتی اور اللہ کے دین سے غافل کرتی ہیں۔اور عقلمند انسان وہ ہے جو اس کے فتنے میں مبتلا نہیں ہوتا، بلکہ اپنا دامن بچاتے ہوئے اللہ تعالی کی منشا کے مطابق زندگی گزار جاتا ہے۔وہ ایک پیاسے اور بھوکے انسان کی طرح حسب ِ ضرورت کھاتا پیتا بھی ہے اور دیگر ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔لیکن اُس میں اِس طرح مگن نہیں ہوتا کہ اُسی کا ہو کر رہ جائے اور اللہ کے دین کی کوئی پرواہ نہ کرے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے قارون سے کہا تھا : ﴿ وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ ﴾ [1] ’’ جو مال ودولت تمھیں اللہ نے دے رکھا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کرو۔اور دنیا میں بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو۔اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ نے تمھارے ساتھ بھلائی کی ہے۔‘‘ لہٰذا ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ معاشرے کے اندر لوگوں سے گھل مل کر رہیں، رزق ِ حلال کیلئے تگ ودو بھی کریں، اللہ تعالی آپ کو جو نعمتیں عطا کرے ان سے بھر پور فائدہ بھی اٹھائیں، لیکن یہ سب کچھ شریعت کی حدود میں رہ کر۔اور اِس طرز پر کہ آپ کا مطمح ِ نظر دنیا ہی نہ ہو کہ آپ دنیاوی آسائشوں کے حصول کیلئے دن رات ایک کردیں اور اللہ کے دین کو یکسر نظر انداز کردیں۔بلکہ آپ دنیا میں ایک اجنبی اور مسافر کی طرح رہیں اور آپ کے مد نظر آخرت ہو، آپ کو یقین ہو کہ دنیا کی لذتیں آخر ایک دن ختم ہو جائیں گی اور آپ اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونگے۔پھر وہ آپ سے آپ کے اعمال کا حساب لے گا اور آپ کے آخری ٹھکانے کا فیصلہ کرے گا۔جس شخص کو قیامت کے روز اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونے کی فکر ہوتی ہے وہ دنیا سے دل نہیں لگاتا۔اور جس آدمی کا مقصد اللہ تعالی کی رضا اور اس کی جنت کو حاصل کرنا ہوتا ہے وہ دنیا کے فتنے سے اپنے دامن کو بچاتا ہے اور اپنے تمام دینی ودنیاوی امور کو اللہ کے دین کے مطابق انجام دیتاہے۔اور آخرت کیلئے تیاری کرتا ہے۔ ایک عقلمند مومن یہ سمجھتا ہے کہ دنیا اس کیلئے ایک جیل کی طرح ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
[1] صحیح مسلم : 2956