کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 241
دوسرا خطبہ
عزیز القدر بھائیو اور بزرگو !
دنیا کی خوشحالی یا تنگ حالی آخرت کی خوشحالی یا تنگ حالی کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے، اِس کا اندازہ اِس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً، ثُمَّ یُقَالُ : یَا ابْنَ آدَمَ ! ہَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ؟ ہَلْ مَرَّ بِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ ؟ فَیَقُولُ : لَا وَاللّٰہِ یَا رَبِّ ))
’’ قیامت کے روز اہل ِ دنیا میں سے سب سے زیادہ خوشحال کو لایا جائے گا جو جہنم والوں میں سے ہوگا، پھر اسے جہنم کی آگ میں تھوڑا سا غوطہ دیا جائے گا، پھر کہا جائے گا : اے ابن آدم ! کیا تم نے کبھی خیر دیکھی تھی ؟ کیا تجھ پر کبھی خوشحالی کا دور گزرا تھا ؟ تو وہ کہے گا ! اے میرے رب ! ہرگز نہیں۔‘‘
یعنی جہنم کا تھوڑا سا عذاب دنیا کی ہر آسائش اور ہر خوشحالی کو بھلا دے گا۔
پھر فرمایا :(( وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ، فَیُقَالُ لَہُ : یَا ابْنَ آدَمَ ! ہَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ؟ ہَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ ؟ فَیَقُولُ : لَا وَاللّٰہِ یَا رَبِّ، مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ)) [1]
’’ اور دنیا میں سب سے زیادہ تنگ حال آدمی کو لایا جائے گا جو جنت والوں میں سے ہوگا، پھر اسے جنت میں تھوڑا سا غوطہ دیا جائے، پھر کہا جائے گا : اے آدم کے بیٹے ! کیا تم نے کبھی تنگ حالی دیکھی تھی ؟ کیا تم پر کبھی کوئی سختی آئی تھی ؟ تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! ہرگز نہیں، مجھ پرکبھی کوئی سختی نہیں آئی تھی اور نہ ہی میں نے کبھی کوئی تنگ حالی دیکھی تھی۔‘‘
یعنی جنت کی تھوڑی سی خوشحالی دنیا کی ہر تنگی اور ہر سختی کو بھلا دے گی۔
اِس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی زیب وزینت اور عارضی خوشحالی آخرت کے عذاب کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔اور دنیا کی سختیاں آخرت کی خوشحالی کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔لہٰذا ہمیں ہر حال میں آخرت کو ہی مد نظر رکھنا چاہئے۔اگر ہم دنیا کی عارضی خوشحالی کی خاطر آخرت کا عذاب مُول لے لیں تو ہم سے بڑا بد نصیب کوئی نہیں ہوگا۔اور اگر ہم دنیا کے فتنے سے بچ کر آخرت میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے جنت کے مستحق بن جائیں تو ہم سے بڑا خوش نصیب کوئی نہ ہوگا۔
[1] القصص28 :77