کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 240
پھر ایک اور درخت جنت کے دروازے کے قریب اس کے سامنے بلند کیا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ اچھا ہو گا۔وہ کہے گا : اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں چلا جاؤں اور اس کے ( قریب بہتا ہوا ) پانی پی سکوں، اس کے بعد تجھ سے کوئی اورسوال نہیں کروں گا۔
اللہ تعالی کہے گا : اے ابن ِ آدم ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو کوئی اور سوال نہیں کرے گا ؟وہ کہے گا : کیوں نہیں اے میرے رب !بس یہی سوال پورا کردیں، اس کے بعد کوئی اور سوال نہیں کروں گا۔اللہ تعالی بھی اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو دیکھ رہا ہو گا جس سے صبر کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا۔چنانچہ وہ اسے اس درخت کے قریب کردے گا اوروہ اس کے قریب پہنچ کر اہلِ جنت کی آوازیں سنے گا۔وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے اس میں داخل کردے۔
اللہ تعالی کہے گا : اے ابن ِ آدم ! کونسی چیز تجھے راضی کرے گی اور تیرے اور میرے درمیان سوالات کا سلسلہ کب منقطع ہو گا ؟کیا تو اس بات پر راضی ہو جائے گا کہ میں تجھے دنیا اور اس جیسی ایک اور دنیا دے دوں ؟ وہ کہے گا : اے میرے رب ! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں جبکہ آپ تو رب العالمین ہیں !
یہاں تک حدیث بیان کرکے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے۔پھر کہنے لگے : کیا تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنس رہا ہوں ؟ لوگوں نے پوچھا : آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ تو انھوں نے کہا : میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ حدیث یہاں تک بیان کرکے ہنس پڑے تھے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ اللہ تعالی بھی اس آدمی کی یہ بات سن کر ہنس پڑیں گے کہ کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے حالانکہ تو تو رب العالمین ہے ! پھر اللہ تعالی کہے گا : میں تجھ سے ہرگز مذاق نہیں کر رہا بلکہ میں جو چاہوں ( کر سکتا ہوں ) اور میں ہر چیز پر قادر ہوں۔‘‘[1]
اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں، ہمارے والدین، ہمارے بیوی بچوں اور ہمارے بہن بھائیوں، سب کو جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔
[1] صحیح مسلم:2807