کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 234
انھوں نے کہا : ( دنیا کے لالچ کی وجہ سے )ہرگز نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عہد لیا تھااور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی ! مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا کہ تمھیں پورے مال میں سے صرف ایک خادم اور اللہ کے راستے میں جہاد کیلئے ایک سواری کافی ہے، جبکہ میں آج محسوس کر رہاہوں کہ میں نے اس سے زیادہ مال جمع کرلیا ہے۔[1] یہ حدیث بھی اِسی بات کی دلیل ہے کہ دنیا سے انسان بہت کم لے اور آخرت کیلئے سوچے اور اسی کیلئے عمل کرے۔اور دنیا میں اِس قدر مگن نہ ہو کہ وہ اس کے فتنے میں مبتلا ہو جائے اور آخرت سے بالکل ہی غافل ہو جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے بے رخی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر سوئے، پھر اُٹھے تو آپ کے پہلو پر اس کے نشانات پڑ ے ہوئے تھے۔ تو ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! اگر ہم آپ کیلئے ایک بستر تیار کردیں تو ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَالِیْ وَلِلدُّنْیَا،مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلَّا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا )) [2] ’’ میرا دنیا سے کیا تعلق ہے ! میں تو دنیا میں ایک سوار ( مسافر ) کی طرح ہوں جو ایک درخت کے نیچے آرام کرتا ہے، پھر اسے چھوڑ کر آگے کو چل دیتا ہے۔‘‘ یعنی مجھے دنیا سے کوئی الفت ومحبت نہیں ہے۔اور دنیا میں میری حیثیت ایک مسافر کی سی ہے جو چلتے چلتے جب تھک جاتا ہے تو ایک درخت کے سائے میں کچھ دیر کیلئے آرام کرلیتا ہے، پھر اسے چھوڑ کر چل دیتا ہے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی بیویوں سے ایلاء کیا تھا، یعنی قسم کھائی تھی کہ آپ ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے قریب نہیں جائیں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم الگ تھلگ ایک اونچے سے کمرے میں چلے گئے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر تشریف فرما ہیں جس پر کوئی بستر نہیں بچھا ہوا تھا۔بس ایک تکیہ تھا جو جلد سے بنا ہوا تھا اور اس میں کھجور کی چھال کو بھرا ہوا تھا۔اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے پاس ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔
[1] جامع الترمذی :2327۔وصححہ الألبانی [2] جامع الترمذی :2377۔وصححہ الألبانی