کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 233
موت کے بعد بھی تمھارے لئے نفع بخش ہوں۔‘‘ مسند احمد وغیرہ میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: ((کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ، وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَہْلِ الْقُبُوْرِ)) [1] ’’ دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو۔‘‘ ایک اجنبی انسان کا کوئی گھر نہیں ہوتا جس میں وہ مستقل طور پر پناہ لے سکے، اسی طرح مسافر بھی دوران ِ سفر بے گھر ہوتا ہے، وہ اگر کہیں ٹھہرتا بھی ہے تو اسے سکون نصیب نہیں ہوتا کیونکہ اسے منزل مقصود پر پہنچنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔چنانچہ وہ کچھ وقت کیلئے آرام کرنے کے بعد آگے کو روانہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں ہر انسان کو ایک اجنبی اور مسافر کی طرح ہی رہنا چاہئے کہ وہ اسے اپنی مستقل رہائش گاہ نہ سمجھے، بلکہ مسافر کی طرح اسے اپنی عارضی گزرگاہ سمجھے اور اس میں آخرت کیلئے عمل کرے اور اللہ تعالی جتنی زندگی دے اسے اس کی منشا کے مطابق گزارے۔ ٭امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : ( لَا تَرْکَنْ إِلَی الدُّنْیَا وَلَا تَتَّخِذْہَا وَطَنًا، وَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالْبَقَائِ فِیْہَا، وَلَا تَتَعَلَّقْ مِنْہَا بِمَا لَا یَتَعَلَّقُ بِہِ الْغَرِیْبُ فِیْ غَیْرِ وَطَنِہٖ ) ’’ تم دنیا کی طرف مت جھکو اور نہ ہی اسے اپنا وطن بناؤ۔اور نہ اس میں باقی رہنے کا سوچو۔اور نہ اس کی کسی ایسی چیز سے دل لگاؤ، جس سے کوئی اجنبی اپنے وطن سے باہر دل نہیں لگاتا۔‘‘ ٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَا تَتَّخِذُوا الضَّیْعَۃَ فَتَرْغَبُوْا فِی الدُّنْیَا)) [2] ’’ تم جائیداد وغیرہ مت بناناکہ پھر دنیا میں ہی دل لگا کے بیٹھ جاؤ۔‘‘ یعنی تم باغات، زرعی زمینیں، فیکٹریاں اور تجارتی ذرائع وغیرہ اتنے نہ بنانا کہ پھر اُنہی میں مشغول ہو کر رہ جاؤ اور تمھیں دنیاوی کاموں سے مہلت ہی نہ ملے۔اور تم مکمل طور پر دین سے غافل ہو جاؤ اور اس کی کوئی پرواہ نہ کرو۔ ٭ ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ابو ہاشم بن عتبہ کی عیادت کرنے کیلئے گئے ( تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں ) تو انھوں نے کہا : ماموں جان ! کیوں رو رہے ہیں ؟ درد کی وجہ سے یا دنیا کے لالچ کی وجہ سے ؟ تو
[1] الصحیحۃ للألبانی : 1157 [2] جامع الترمذی :2328۔وصححہ الألبانی