کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 223
’’ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے ان سے آپ کا کچھ سروکار نہیں۔ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔پھر وہ انھیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں مصروف تھے۔‘‘ سامعین گرامی ! مسلمانوں میں اختلاف کا فیصلہ کیسے ہوگا ؟ اس کیلئے اللہ تعالی کا یہ فرمان سامنے رکھیں :﴿ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِِلَی اللّٰہِ﴾ [1] ’’اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی :﴿یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ﴾[2] ’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالی کا حکم مانو اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو۔اور تم میں جو حکم والے ہیں ان کا۔پھر اگر تمھارا کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔یہی (تمہارے حق میں )بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھاہے۔‘‘ اختلافی بات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا معنی یہ ہے کہ اس کا فیصلہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کیا کرو۔ یہ اختلافات کو ختم کرنے کا ربانی نسخہ ہے۔اگر تمام مسلمان اس پر عمل کریں تو یقینی طور پر ان میں موجودہ اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔جیسا کہ قرونِ اولی کے لوگ اپنے اختلافات اسی منہج کو اختیار کرتے ہوئے نمٹا لیا کرتے تھے۔اور جب امت میں اختلافات ہوں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے وہ کیا ہے ؟ سنئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ! (( عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ، تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ[3])) ’’ تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا۔اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا۔اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
[1] الشوری 42 :10 [2] النساء4: 59 [3] سنن أبی داؤد :4607۔وصححہ الألبانی