کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 220
’’ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔‘‘
اورکہیں فرمایا :﴿ فَاَعْرَضَ اَکْثَرُہُمْ فَہُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ﴾ [1]
’’پھر ان میں سے اکثر نے منہ پھیر لیا، چنانچہ وہ سنتے ہی نہیں۔‘‘
ان آیات سے ثابت ہوا کہ اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو نہیں جانتے، جو نہیں سمجھتے، جو نہیں سنتے، جو شکر ادا نہیں کرتے، جو اعراض کرتے ہیں، جو جاہل ہیں، جو چوپائے جانوروں سے بھی بد تر ہیں، جو ایمان لا کر بھی شرک کرتے ہیں، جو ظن وگمان کی اتباع کرتے ہیں اور جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کا پاس نہیں کرتے۔
اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ﴾ [2]
’’ اور اگر آپ اہل ِزمین کی اکثریت کی اتباع کریں گے تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے۔وہ تو محض ظن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔اور صرف قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔‘‘
تمام آیات سے معلوم ہواکہ حق وباطل کی پہچان اکثریت سے نہیں، بلکہ اس کی پہچان دلائل وبراہین کے ساتھ ہوتی ہے۔لہذا محض اکثریت کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ اتنے زیادہ لوگ فلاں عقیدہ رکھتے ہیں، یا اتنے زیادہ لوگ فلاں عمل کرتے ہیں، تو وہ غلط نہیں ہو سکتے ! بلکہ اس کے برعکس حق پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تعداد کے لحاظ سے کم رہے ہیں۔اور انہی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْر﴾[3]
’’ اور میرے بندوں میں سے شکرگزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔‘‘
11۔ضعیف اور موضوع احادیث سے ڈرانا ضروری ہے
کیونکہ ہمارے معاشرے میں ضعیف اور موضوع احادیث بری طرح سے منتشر ہیں۔اور یہ ایسی احادیث ہیں جن پر غلط عقائد اور باطل نظریات کی بنیاد ہے۔اور بیشتر بدعات کی اساس بھی اسی قسم کی احادیث ہیں۔
جبکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے صرف وہ احادیث معتبر اور قابل حجت ہیں کہ جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوں یا کم ازکم حسن درجے کی ہوں۔اور جو احادیث محدثین کے نزدیک ضعیف یا موضوع ومن گھڑت ہوں تو وہ قطعی طور پر معتبر اور قابل حجت نہیں ہیں۔ایسی احادیث سے نہ مسائل واحکام اخذ
[1] حم السجدۃ41 :4
[2] الأعراف7: 116
[3] سبأ34 :13