کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 216
لہذا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مقابلے میں مسلکی آراء کو پیش کرنے سے باز رہنا چاہئے۔ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مقابلے میں شیخین کریمین جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ اور جناب عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پیش کرنے پر بھی اللہ کے عذاب سے ڈراتے تھے۔ جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے عروۃ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ اللہ سے نہیں ڈرتے کہ آپ حجِ تمتع کی رخصت دیتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا : اے عروۃ ! تم اپنی والدہ سے پوچھ لو، عروۃ کہنے لگے : ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) نے تو تمتع نہیں کیا ! یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ( وَاللّٰہِ مَا أُرَاکُمْ مُنْتَہِیْنَ حَتّٰی یُعَذِّبَکُمُ اللّٰہُ، نُحَدِّثُکُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ،وَتُحَدِّثُوْنَا عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ) ’’ اللہ کی قسم ! میں نہیں سمجھتا کہ تم باز آؤ گے یہاں تک کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو جائے، ہم تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہیں اور تم اس کے مقابلے میں ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) کی بات کرتے ہو؟‘‘ اور دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ( أُرَاہُمْ سَیَہْلِکُوْنَ، أَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم، وَیَقُوْلُوْنَ : قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ ؟ ) ’’ میں سمجھتا ہوں کہ وہ عنقریب ہلاک ہو جائیں گے، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں ) فرمایا اور یہ کہتے ہیں کہ ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) نے ( یوں ) کہا ؟‘‘ [1] یہاں پر یہ بات ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ خود ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ بھی قرآن وسنت کی نصو ص کے مقابلے میں اپنی آراء پر عمل کرنے سے منع کرتے تھے۔ ٭ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا تھا : ( لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَن یَّأْخُذَ بِقَوْلِنَا، مَا لَمْ یَعْلَمْ مِنْ أَیْنَ أَخَذْنَاہُ ) ’’ کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ ہمارے کسی قول کو قبول کرے جب تک وہ یہ نہ معلوم کر لے کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ‘‘ اسی طرح انھوں نے کہا تھا : ( حَرَامٌ عَلٰی مَن لَّمْ یَعْرِفْ دَلِیْلِیْ أَن یُّفْتِیَ بِکَلَامِی، فَإِنَّنَا بَشَرٌ نَقُولُ الْقَوْلَ الْیَوْمَ وَنَرْجِعُ عَنْہُ غَدًا ) ’’ جس شخص نے میری دلیل کو نہیں پہچانا اس پر حرام ہے کہ وہ میرے کلام کے ساتھ فتوی دے۔کیونکہ ہم
[1] صحیح جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر۔أبو الأشبال : ص 525