کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 213
اسی طرح کا قول جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی مروی ہے۔
5۔توحید ِ الوہیت دعوت کا اولین اورسب سے اہم رکن
جی ہاں ! توحید ِ الوہیت دعوت کا سب سے پہلا اور سب سے اہم رکن ہے۔کیونکہ اسی توحید کیلئے اللہ تعالی نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔چنانچہ ہر نبی نے اپنی دعوت کا آغاز ﴿ اُعْبُدُوْا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ إِلٰہٍ غَیْرُہُ ﴾سے کیا۔اور ہر رسول کو اللہ تعالی نے یہ پیغام دے کر بھیجا کہ لوگوں کو حکم دوکہ ﴿اُعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ﴾
’’ اکیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرو اور طاغوت کی پوچا کرنے سے بچو۔‘‘
سید الرسل جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی دعوت کا آغاز اسی توحیدسے کیا اور فرمایا :
(( قُوْلُوْا : لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ، تُفْلِحُوْا ))
’’ تم کہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اگر یہ کہو گے تو کامیاب ہوجاؤگے۔‘‘
اور یہی وہ توحید ہے جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے دعوت دینے کی تلقین مبلغین کو کرتے تھے۔
چنانچہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو آپ نے حکم دیا :
(( إِنَّکَ تَقْدَمُ عَلیٰ قَوْمِ أَہْلِ کِتَابٍ فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوْہُمْ إِلَیْہِ عِبَادَۃُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ))
’’ بے شک تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو، لہذا سب سے پہلے تم نے انہیں جس بات کی طرف دعوت دینی ہے وہ ہے صرف اللہ تعالی کی عبادت۔‘‘[1]
سامعین گرامی ! ہم خاص طور پر ’ توحید ِ الوہیت‘ کا کیوں کہتے ہیں ؟ اس لئے کہ توحید ربوبیت کا تو تقریبا سارے مسلمان اقرار کرتے ہیں، بلکہ مشرکین مکہ بھی اللہ تعالی کو رب ( خالق ومالک ) مانتے تھے، انھیں اعتراض تھا تو توحید الوہیت پہ تھا۔وہ کہا کرتے تھے :
﴿ اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِِلٰہًا وَّاحِدًا ﴾ ’’ کیا اس نے سب معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیا ؟ ‘‘
اور آج بھی بہت سارے لوگ اللہ رب العزت کو خالق ومالک تو مانتے ہیں، لیکن اس کیلئے تمام عبادات کو خاص نہیں کرتے۔بلکہ غیر اللہ کے سامنے رکوع، سجدہ بھی کرتے ہیں، غیر اللہ کو داتا، غوث، حاجت روا اور مشکل کشا بھی مانتے ہیں، غیر اللہ سے امیدیں بھی وابستہ کرتے ہیں، ان سے خوف بھی کھاتے ہیں اور ان پر توکل بھی کرتے ہیں۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دعوت الی اللہ کا فریضہ سر انجام دینے والے تمام حضرات اپنی
[1] صحیح البخاری : 1458، صحیح مسلم : 19