کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 212
اور اس کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے کو چھوڑکر دوسرا راستہ اختیار کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَمَن یُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْرًا﴾ [1]
’’ اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے اُدھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بُرا ٹھکانا ہے۔‘‘
اس آیت میں مومنوں سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، کیونکہ اس کے نزول کے وقت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی تھے جو اس کے سب سے پہلے مخاطب تھے۔لہذا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے اور ان کے طرز عمل کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اور طرز عمل اختیار کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالی کی اس وعید سے ڈرنا چاہئے۔
اور ہم نے جو حدیث خطبہ کے آغاز میں ذکر کی ہے اور جس میں یہ الفاظ ہیں : ( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) ’’ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘ تو یہ بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا منہج اور ان کا طرز عمل ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنا چاہئے۔نہ یہ کہ کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق یا اپنے مخصوص نظریے کے مطابق جیسے چاہے قرآن وحدیث کو ڈھال لے۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے : (مَنْ کَانَ منکم متأسیا فَلْیتأس بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم، فإنہم کَانُوْا أبَرَّہَذہ الْأُمَّۃِ قُلُوْبًا، وَأعْمَقَہَا عِلْمًا، وَأقَلَّہَا تَکَلُّفًا، وَأَقْوَمَہَا ہَدْیًا، وَأَحْسَنَہَا حَالًا،قَوْمًا اِخْتَارَہُمُ اللّٰهُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم وَإِقَامَۃِ دِیْنِہٖ، فَاعْرِفُوْا لَہُمْ فَضْلَہُمْ، وَاتَّبِعُوْہُمْ فِیْ آثَارِہِمْ فَإِنَّہُمْ کَانُوْا عَلَی الْہُدَی الْمُسْتَقِیْمِ ) [2]
’’ تم میں سے جو شخص اقتداء کرنا چاہتاہو تو وہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرے۔کیونکہ وہ امت کے سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے، سب سے زیادہ گہرے علم والے، سب سے کم تکلف کرنے والے، سب سے زیادہ مضبوط طریقے پر چلنے والے، سب سے زیادہ اچھے حال والے تھے۔یہ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اپنے دین کو قائم کرنے کیلئے منتخب کر لیا تھا۔لہٰذا تم ان کی فضیلت کو پہچانو اور ان کے اخلاق اورطور طریقوں میں ان کی پیروی کرو کیونکہ وہ صراطِ مستقیم پر چلنے والے تھے۔‘‘
[1] النساء4 :115
[2] جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر :926