کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 202
پابندی نہیں ہوتی۔وہ بلا روک ٹوک آتے جاتے ہیں اور اپنی سالیوں سے کھلی گفتگو کرتے ہیں۔اِس آزادی کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔اس لئے اس سلسلے میں پرہیز کرنا چاہئے۔ 12۔نوکروں کو گھروں میں آنے جانے کی کھلی آزادی ہمارے معاشرے میں بے حیائی کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ بعض گھروں میں نوجوان نوکروں یا ڈرائیوروں کو کھلی آزادی دی جاتی ہے۔چنانچہ وہ پوری آزادی کے ساتھ گھروں کے اندر آتے جاتے ہیں۔گھروں میں موجود خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے گفتگو کرتے ہیں۔حالانکہ گھریلو نوکروں کے ساتھ گھر کی نوجوان لڑکیوں کا فتنے میں مبتلا ہونا آسان تر ہوتا ہے۔اور اِس طرح کے کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ گھریلو نوکروں اور ڈرائیوروں کے ساتھ گھر کی خواتین اور نوجوان لڑکیاں حیا سوز اور گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں۔اسی طرح گھریلو ملازموں کے ساتھ نوجوان لڑکیوں کے فرار کی کہانیاں بھی ہر آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔لہٰذا گھروں کے ذمہ داران پر لازم ہے کہ وہ ان نوکروں اور ڈرائیوروں کو بلا روک ٹوک گھروں میں داخل ہونے سے منع کریں اور اپنی خواتین اور بیٹیوں کو ان سے بے تکلف گفتگو کرنے سے روکیں تاکہ عزت وآبرو کا تحفظ ہو سکے اور عفت وعصمت تار تار ہونے سے بچ جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات ( رضی اللہ عنہن ) کو مخنث قسم کے لوگوں کے بارے میں حکم دیا تھا کہ (( لَا یَدْخُلْنَ ہٰؤُلَائِ عَلَیْکُنَّ )) ’’ یہ تمھارے پاس داخل نہ ہوں۔‘‘[1] آپ ذرا غور کریں کہ جب مخنث قسم کے لوگ کہ جو مردوں کی طرح زنا کا ارتکاب نہیں کر سکتے، ان کا عورتوں کے پاس آنا جانا ممنوع ہے، تو نوکروں اور ڈرائیوروں کا گھروں میں آزادانہ آنا جانا کیسے جائز ہو سکتا ہے! 13۔زنا کاری بے حیائی اور فحاشی کی بد ترین شکل وصورت زنا کرنا ہے۔جو اسلام کی نظر میں سنگین جرم ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔اللہ تعالی نے اس کے قریب تک جانے سے منع کردیا ہے۔ اس کا فرمان ہے : ﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآئَ سَبِیْلًا﴾[2] ’’ اور تم زنا کے قریب تک نہ جاؤ، یقینا وہ بے حیائی کا کام اور بہت برا راستہ ہے۔‘‘ محترم حضرات ! بے حیائی کی جتنی صورتیں ہم نے ذکر کی ہیں ان سب سے پرہیز کرنا چاہئے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صفت ِ حیا اختیار کرنے کی توفیق دے۔اور ہمیں بے حیائی سے محفوظ رکھے۔
[1] صحیح البخاری : 4069، صحیح مسلم :2180 [2] الإسراء17 :32